اب جگر تھام کے بیٹھو… جی ہاں معاملہ ہی کچھ ایسا ہے کیوں کہ اب آپ کو ملواتے ہیں ایک ایسی شخصیت سے جن کے آباؤ اجداد نے اقلیم سلطانی و درویشی دونوں پائیں مگر دونوں کو زمانے کی اس عیاری سے پاک رکھا جس کا گلہ حکیم الامت، دانائے راز حضرت اقبالؒ نے کیا.
اُردو میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد اِن دنوں ڈی لٹ کر رہے ہیں۔ چالیس سے زائد کتب کے مصنف، مولف اور مترجم ہیں۔ ایک ہزار کے قریب مضامین اُردو میں اور پانچ سو انگریزی میں لکھ چکے ہیں جو اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ کئی ادبی انعامات حاصل کیے ہیں۔ آپ یکم نوری 1935ء کو موضع کاکو، ضلع گیا (بہار) میں پیدا ہوئے تھے۔ گوتم بدھ کو جہاں گیان حاصل ہوا وہ مقام ان کے گھر سے 28 میل دُور ہے۔ آپ کے والد محترم سید شاہ منظور الرحمٰن اختر کاکوی اور دارالمصنفین اعظم گڑھ کے ناظم اعلٰی اور ’’معارف‘‘ کے مدیر اعلٰی مولانا صباح الدین عبد الرحمٰن مرحوم دونوں مدرسہ شمسُ الھدٰی میں ہم جماعت تھے۔ کئی غیر مسلموں کو آپ نے مشرف بہ اسلام کیا تھا، جس کا علم محمود الرحمٰن صاحب کو اپنے ایک ہم جماعت اسری رام کی زبانی ہوا تھا۔ انہوں نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کو ایک خط میں شاہ منظور الرحمٰن صاحب کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’آپ اپنے صوبے کی آبرو ہیں‘‘
آپ نے قرآن حکیم کا منظوم ترجمہ منفرد انداز میں کیا تھا۔ صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ آپ کا فارسی اور اُردو کلام ’’معارف‘‘، ’’ہمایوں‘‘ اور دیگر معاصر پرچوں میں چھپا تھا۔ علامہ اقبالؒ کے انتقال پر نہایت درد انگیز نظم لکھی تھی جو ’’ہمایوں‘‘، لاہور میں شائع ہوئی تھی۔ 1946ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر ایک طویل نظم لکھی جو کتابچہ کی صورت میں چھپ کر تقسیم ہوئی تھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے انتقال پر فارسی میں جو دلگداز نظم لکھی وہ ’’معارف‘‘ کے ’’سلیمان ندوی نمبر‘‘ میں بڑی آب و تاب سے شائع ہوئی تھی۔ مشہور محقق اور ماہرِ غالبیات، قاضی عبد الودود، ڈاکٹر محمود الرحمٰن صاحب کے والد محترم کے بھانجے تھے۔ داکٹر صاحب کا ننھیالی سلسلہ نصب حضرت امام جعفر صادق ؓ سے ہوتا ہوا حضرت سیدنا امام حسین ؓ اور مولاعلی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔ محمود الرحمٰن صاحب کے نانا مولانا سید شاہ محمد فرید الدین احمد چشتی فردوسی القادری بستی کاکو کے سب سے بڑے رئیس تھے اور ڈاکٹر صاحب کی والدہ مرحومہ کو شادی کے وقت ایک گاﺅں جہیز میں دیا تھا۔ ایک مجذوب کے گلے لگاتے ہی من میں فقیری در آئی اور ساری جائیداد اللہ کی راہ میں لُٹا دی۔ پھر کئی کئی روز کا فاقہ رہنے لگا تھا مگر روحانیت کا یہ عالم تھا کہ بنارس سے ہندو جوگی اور برہمن آپ سے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ محمود الرحمٰن صاحب کی بیعت 1946ء میں نانا کے دستِ مبارک پر سلسلہ چشتیہ میں ہوئی تھی۔ ان کا وصال 1955ء میں ہوا اور دو ہی ماہ بعد محمود الرحمٰن صاحب ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ ان کی روحانی تعلیم مکمل نہ ہو سکی جس کی تکمیل کا انتظام قدرت نے یوں کیا کہ 1955ء میں کوٹری سندھ میں محمود الرحمٰن صاحب اپنے بہنوئی کے پاس ٹھہرے تو وہاں قلندر زمان حضرت شاہ زادہ اسد الرحمٰن قُدسیؒ کا اسم گرامی سنا۔ بہنوئی حضرت کے استانے پر جایا کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت قدسیؒ سے محمود الرحمٰن صاحب کے نصف شب کے مرید ہونے کا واقعہ بتایا تو حضرت نے فرمایا کہ ایسی بیعت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرید کو کسی اور کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ پھر 1956ء میں حضرت قدسیؒ سے محمود الرحمٰن صاحب کی ملاقات ہوئی۔ عقیدت بڑھتی گئی، پھر ایک مقام ایسا آ پہنچا جب حضرت نے باقاعدہ تعلیم دینی شروع کر دی تھی۔ یہ سلسلہ عالمِ خواب میں آج بھی (حضرت کے وصال نومبر 1977ء کے بعد) جاری ہے۔ ڈاکٹر محمود الرحمٰن صاحب کو سلسلہ قلندریہ کی مکمل تعلیم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت قدسیؒ نے انہیں ایسے اسرار و رموز سے آگاہ کیا جن پر انہیں آخری دم تک ناز رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ماموں حضرت حکیم شاہ ولی الحق مدظلہ العالٰی سے بھی فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا۔ آپ نوے سال کے ہیں۔ پاکستان آ جانے کے بعد آپ نے اپنے بھانجے کو سلسلہ قادریہ سے منسلک کیا اور سندِ خلافت عطا کی۔ دنیاوی تعلیم میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد بھی محمود الرحمٰن صاحب چَین سے نہ بیٹھے اور ڈی لٹ کی یاری شروع کر دی ہے۔ اسی طرح روحانی تعلیم میں بھی ان کا شوق حل من مزید کا مطالبہ کرتا رہا ہے چنانچہ ایک اور ذریعے سے بھی انہوں نے اس شوق کی تکمیل کی ہے۔ حضرت حکیم شاہ محمد ابو الحسنات نے جو حضرت مخدوم الملک یحٰی منیری کے سجادہ نشین تھے، ڈاکٹر محمود الرحمٰن صاحب کی تعلیم اپنی حیات میں بھی فرمائی اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کے توسط سے محمود الرحمٰن صاحب سلسلہ فردوسیہ سے بھی وابستہ ہوئے۔ یہ سلسلہ حضرت نجیب الدین سہروردی سے جا ملتا ہے۔ حضرت قدسیؒ کے ذریعے محمود الرحمٰن صاحب سلسلہ شازلیہ سے بھی مستفیض ہوئے ہیں۔ سلسلہ اویسیہ سے خاص عقیدت رکھتے ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ مشہور بلخی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ کے جدِ امجد حضرت ابراہیم ادھمؒ بلخی محتاجِ تعارف نہیں۔ نام نہالی سلسلہ حضرت بابا صاحبؒ (پاک پتن شریف والے) سے جا ملتا ہے۔ میری ملاقات ڈاکٹر محمود الرحمٰن صاحب سے 1986ء میں ہوئی اور اس تعلق میں پختگی اس روز پیدا ہوئی جس روز مجھے یہ علم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی روحانی تعلیم حضرت قدسیؒ نے کی ہے۔ حضرت کے وصال کے بعد بھی ان کے علاوہ شاید ہی کوئی اور مرید یا عقیدت مند اس باقاعدگی کے ساتھ کئی کئی روز تک بھون، (ضلع چکوال) میں حضرت قدسیؒ کی قربت میں رہ کر آتا ہو گا۔ علمی و ادبی سرگرمیاں ہوں یا روحانی مراتب کی سرفرازی، ڈاکٹر محمود الرحمٰن حاموشی سے مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ مزاج میں گہرائی و گیرائی ایسی ہے کہ احباب نے انہیں کسی معاملے میں اپنی بڑائی کا اظہار کرتے نہیں دیکھا۔ طبیعت میں سادگی کے ساتھ ساتھ نفاست پسندی بھی ہے۔ خوش لباس ہیں اور بات چیت میں ایسا درویشانہ انداز اختیار کرتے ہیں جو نہایت دل نشین ہوتا ہے۔ ہر ملنے والے کے مونث و غم خوار ہیں۔ اور ہر ضرورت مند کی ممکنہ ضرورت پوری کرنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ یار کی یاری سے زیادہ اس کے عمل پر نظر رکھتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ایک محسوس حلقہ احباب تشکیل دے رکھا ہے۔ اس کے باہر کے جھمیلوں سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ قلندرانہ مسلک پر عمل پیرا رہ کر ہر طرح کے تعصبات سے دامن بچا کر زندہ رہنے کے قائل ہیں۔ قناعت پسند ہیں، جو مل گیا اس پر شاکر اور جو نہیں ملا نہ اس کا افسوس، نہ دینے والے کی شکایت۔ دفتری سازشوں سے کوسوں دور رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی حاسد کسی جال میں انہیں گرفتار کرنا بھی چاہے تو منہ کی کھائے۔ اس لیے کہ جو لوگ اپنے معمالات اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتے ہیں انہیں خود یہ جنگ نہیں لڑنا پڑتی. (ڈاکٹر محمود الرحمٰن صاحب 17 اکتوبر، 2010ء کو وصال فرما گئے-)
(ڈاکٹر تصدق حسین کی آپ بیتی ’’داستان میری‘‘ سے انتخاب)
اُردو کے ممتاز محقق اور ادیب ڈاکٹر تصدق حسین 1937ء میں بادشاہ پور، ضلع چکوال میں پیدا ہوئے. آپ نے 1965ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے انگریزی اور 1969ء میں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کرنے کے بعد کولمبیا پیسفک یونیورسٹی کیلی فورنیا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی. آپ کی پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا:
Life and Work of Naseem Hijazi
ڈاکٹر تصدق حسین 1960ء سے 1985ء تک مختلف سرکاری تعلیمی اداروں میں بطور معلم، تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. علاوہ ازیں آپ نے 1985ء سے 1998ء تک ادارۂ فروغِ قومی زبان (سابقہ مقتدرہ قومی زبان) میں بطور سربراہ دارالترجمہ کام کیا. یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر تصدق حسین 2 سال تک محی الدین اسلامی یونیورسٹی، نیراں شریف (آزاد کشمیر) اور الخیر یونیورسٹی میں بطور پرنسپل اور ڈائریکٹر اکیڈمکس طعینات رہے. آپ کی شائع شدہ کتب کی تعداد 50 ہے جن میں:
1. داستاں میری (آپ بیتی – 1981ء)
2. پتھر کی آنکھ (افسانے – 1982ء)
3. اسلام، اکیسویں صدی میں (ترجمہ – 1985ء)
4. نسیم حجازی، ایک مطالعہ (1987ء)
5. یوسف ظفر کی بات (1988ء)
6. جیلانی بی اے کی کہانی (1990ء)
7. اقبالؒ، پیامبرِ اُمید (1991)
8. (Iqbal, a Cosmopolitan Poet (1991
9. سید مودودیؒ، مردِ عصر و صورت گر مستقبل (1992ء)
10. واصف علی واصفؒ، سوانح و افکار (1993ء)
11. سیدنا بلال ؓ (ترجمہ – 1994ء)
12. نوادرات عرشی امرتسری (1996ء)
13. سرِ تسلیم خم ہے (ترجمہ – 1996ء)
14. سید مکی مدنی العربی ﷺ (ترجمہ – 1997ء)
15. عقل والوں کے لیے (ترجمہ – 1998ء)
16. تباہ شدہ اقوام (ترجمہ – 1998ء)
17. اللہ کی نشانیاں (ترجمہ – 1999ء)
18. دنیا اور اس کی حقیقت (ترجمہ – 1999ء)
19. نظریہ ارتقا، ایک فریب (ترجمہ – 1999ء)
20. معجزاتِ قرآن (ترجمہ – 2001ء)
21. قرآن اور ہماری زندگی (ترجمہ – 2002ء)
22. مکہ مکرمہ کے ہزار راستے (ترجمہ – 2002ء)
23. اسلام اور دھشت گردی (ترجمہ – 2003ء)
24. آخرت کی نشانیاں (ترجمہ – 2004ء)
25. کلیاتِ یوسف ظفر (2004ء)
26. یوسف ظفر، سوانح و افکار (2004ء)
27. یوسف ظفر، سوانح حیات (2005ء)
28. رومانیت اور شیطانی حربہ (ترجمہ – 2005ء)
29. سید آمنہؓ (ترجمہ – 2007ء)
30. علامہ محمد یوسف جبریل، حیات و خدمات (2007ء)
31. حقوقِ نسواں، اسلام میں (چودہ سو برس کا قصہ یا دورِ حاضر کی بات) (ترجمہ – 2007ء)
32. غیر مسلم اسلام کے بارے میں کیا پوچھتے ہیں؟ (ترجمہ – 2007ء)
33. قرآن اور جدید سائنس (دونوں میں موزونیت ہے یا تضاد) (ترجمہ – 2007ء)
34. مناظرہ بمقابلہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر ولیم کیمبل (2007ء)
35. متاعِ فقیر (2007ء)
36. امریکہ میں اسلام تک کا سفر (ترجمہ – 2007ء)
37. حکایاتِ سعدیؒ (بچوں کے لیے – 2010ء)
38. حکایاتِ رُویؒ (بچوں کے لیے – 2010ء)
39. معجزاتِ رسولﷺ (بچوں کے لیے – 2010ء)
40. جیون ساتھی کے دل میں کیسے اُترا جائے (2010ء)
41. تعلیمی فتوحات کو کیسے ممکن بنایا جائے؟ (2010ء)
42. مادی کامیابیوں سے روحانی کامیابی تک (2010ء)
43. کیا وقت کی منصوبہ بندی ضروری ہے؟ (2010ء)
44. اُٹھتے ہیں حجاب آخر (خطبات شیخ ابراہیم – 2010ء)
45. صُوفی شعراء کے کلام سے انتخاب (2010ء)
46. نہج البلاغہ (انتخاب و تدوین – 2011ء)
47. حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عظیم الشان فیصلے، مکتوبات، اقوال (2011ء)
48. نبیﷺ کا گھرانہ (2012ء)
49. الکیمسٹ (ترجمہ – 2014ء)
50. صوفی محمد برکت علیؒ، سوانح، اقوال، تعلیمات و ارشادات (2016ء)
شامل ہیں.
زبردست
پسندیدگی کا بے حد شکریہ