زبانیں مررہی ہیں – ڈاکٹر شاہد صدیقی

زبان اورمعاشرے میں ایک باہمی ربط ہے‘ جس سے یہ ایک دوسرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ جیسے سماجی عناصر‘ مثلاً :عمر‘ کلاس‘ مذہب زبان کے استعمال میں اپنی جھلک دکھاتے ہیں‘ اسی طرح زبان بھی معاشرے پرایک غیرمحسوس طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔ زبان کے متعلق ایک قدامت پسندانہ تصور یہ ہے کہ یہ محض ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے اوریہ ایک غیرفعال (passive) غیرجانبدار (neutral) اورحتیٰ کہ ایک غیرسیاسی (apolitical) چیز ہے۔ اس قدامت پسند نظریہ کا ایک اہم مفروضہ یہ ہے کہ کچھ زبانیں اعلٰی و برتر ہیں اور کچھ زبانیں کم تر درجے کی ہوتی ہیں۔ زبان کے اس فرسودہ تصور کو سیپر(Sapir) اور وورف (Whorf) کی اہم تحقیق نے رد کردیا ۔اس تحقیق کے مطابق زبان ہرگزغیرفعال اورغیرجانبدار شے نہیں اورنہ ہی اس کا کام محض خیالات‘ محسوسات‘ اور جذبات کی ترسیل ہے‘ بلکہ زبان حقیقتوں کی تشکیل (construction of realities) اوران کے تسلسل (perpetuation) میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح زبان ایک ایسے اظہاریے کے طور پر ابھرتی ہے‘ جس کا براہِ راست تعلق طاقت (power) اور سیاست (politics) سے ہے۔
یوں زبان کسی بھی معاشرے کا اہم جزو ہوتی ہے‘ جو انفرادی اور قومی سطح پرشناخت کا مظہر (Identity Markers) ہوتی ہے‘ اسی طرح زبان استعمال کرنے والے کے عقائد (Beliefs) زبان اوردنیا کی تفہیم میں ایک اہم رشتہ ہوتا ہے‘ لہٰذا دنیا کی تفہیم ہر زبان میں رائج خیالات سے مختلف انداز میں تشکیل پاتی ہے۔ یوں زبان انفرادی اورمعاشرے کی سطح پر ایک اہم کردار ادا کرتی ہے‘ کیوں کہ ہرزبان کے ساتھ اس کی اپنی دنیا کا تصور بھی جڑاہوتاہے۔ اس وقت دنیا میں بہت سی زبانیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ زبانوں کے معدوم ہونے کاعمل پچھلے کچھ عشروں سے تیز ہوگیا ہے۔ زبانوں کے انسائیکلوپیڈیا Ethnologue کے مطابق‘ دنیامیں سات ہزار سے زیادہ زبانیں بولی جارہی ہیں‘ لیکن کچھ زبانوں کے بولنے والے بہت زیادہ اورکچھ کے بہت کم ہیں۔ معروف محقق ڈیوڈ کرسٹل (David Crystal) کے مطابق‘ دنیا کی چار فیصد زبانوں کو دنیا کے 96 فی صد لوگ بولتے ہیں۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً اڑھائی ہزار زبانوں کو معدوم ہونے کاخطرہ ہے۔
تاریخی اعتبار سے زبانوں کے حوالے دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں‘ جس میں ایک روایتی رویہ چھوٹی زبانوں کواہمیت نہیں دیتا۔ اس رویے کو ہم (Melting pot Approach) کہہ سکتے ہیں جس کے مطابق چھوٹی زبانوں کو بڑی زبانوں میں ضم ہو جانا چاہیے۔ یہ رویہ استعماری طاقتوں میں عام نظرآتا ہے جواپنی ثقافت اوراپنی زبان کو ارفع سمجھتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ علاقائی ثقافتیں اور زبانیں بھی اپنی شناخت بھول کر ایک بڑی ثقافت اور زبان کا حصہ بن جائیں۔ اس رویے کے پس منظر میں وہ احساس برتری کارفرماہے‘ جسے معروف دانش ور ایڈورڈ سعید نے (Positional Superiority) کا نام دیا ہے۔ یوں ہردورمیں معاشرے کے زورآور(Dominate) گروہ اپنی زبان کم زور گروہوں پر مسلط کرتے آئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ زبان کا طاقت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے. زبان کی مدد سے ایک خاص قسم کا (Discourse) ترتیب پاتاہے‘ جو طاقت (Power) کے ہم قدم چلتا ہے۔
یوں زبان کنٹرول (Control) اوربالادستی(Hegemony) کے عمل میں بنیادی کردارادا کرتی ہے۔ زبان کے اس پہلو کے حوالے سے بہت سے دانش وروں‘ مثلاً: گرامچ (Gramsci) ڈریڈا (Derida)فوکو (Foucault) اورفیرکلاف (Fairclough) نے خاص طورپر بحث کی ہے کہ کیسے زبان کی مدد سے زور آور گروہ کم زور گروہوں پر اپنی بالادستی قائم رکھتے ہیں۔ زبانوں کے اس استعماری رویے کے برعکس ایک مکتبِ خیال یہ سمجھتا ہے کہ کسی معاشرے میں تنوع ہی اس کاحسن ہوتاہے‘ جس طرح چمن میں رنگ برنگ کے پھول اپنی بہار دکھاتے اورچمن کاحسن بڑھاتے ہیں‘ اسی طرح دنیا میں مختلف زبانوں کا وجود دنیا میں تنوع کے لیے ضروری ہے۔
لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ دنیا کی بہت سی زبانیں معدوم ہورہی ہیں۔ زبانوں کے معدوم ہونے میں قدرتی ثقافتی‘ سماجی‘ معاشی اور جغرافیائی عوامل کا کردار ہے۔ ان عناصرمیں سب سے اہم عنصر عملیت پسند (Pragmatism) ہے‘ جوگلوبلائزیشن کی بنیاد ہے۔ سماجی ثقافتی اورجغرافیائی عناصربھی گلوبلائزیشن کے عمل سے غیرمحسوس طریقے سے جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں انگریزی اور اُردو زبانیں پاکستانی کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں‘ مثلاً :پنجابی‘ بلوچی‘ پشتو‘ سرائیکی کی نسبت زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں‘ کیوں کہ ان کے ساتھ بہت سے فوائد (Perks) وابستہ ہیں. اس بات کا ادراک بھی بہت ضروری ہے کہ زبان بولنے والے کے معاشی ومعاشرتی مرتبے کا تعلق براہ راست اس کی زبان کی قدرومنزلت سے منسلک ہے؛ اگرکسی مخصوص گروہ کا معاشی ومعاشرتی رتبہ بلند ہے تواس کی زبان بھی بہت اعلیٰ وارفع اورطاقتور سمجھی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات تو کلی طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی زبان اپنی اصل میں کم تر یا بر ترنہیں ہوتی‘ بلکہ زبان بولنے والے کا معاشی ومعاشرتی مرتبہ ہی زبان کی معاقشرتی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ تمام زبانیں مساوات کی بنیاد پر ایک جیسی ہیں اوران سب کااحترام کیا جانا ضروری ہے۔
انسائیکلوپیڈیا Ethnologue کے مطابق‘ اس وقت پاکستان میں 74 زبانیں بولی جارہی ہیں. یہ سب زندہ زبانیں ہیں۔ ان میں سے 66 مقامی زبانیں ہیں اورآٹھ غیرمقامی ہیں۔ ان میں سے 9 معدوم ہونے کے قریب ہیں اور 2 مررہی ہیں۔ یہ زبانیں زیادہ ترپہاڑوں میں بولنے والے لوگوں کی زبانیں ہیں۔ گلوبلائزیشن کے ردعمل کے طورپرخاندانوں کی مرکزیت اور ان کی زبانیں خطرے میں ہیں۔ ان خاندانوں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول یا نوکری تلاش کرنے میں بڑے شہروں کارخ کرتے ہیں‘ جہاں ان کا واسطہ انگریزی یا اُردو سے پڑتاہے۔ زبانوں کے معدوم ہونے میں ایک اوراہم کردار پالیسی سازاداروں کاہے‘ جوکچھ زبانوں کے حوالے سے غیرمعمولی بے حسی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ بے حسی کا یہ رویہ وفاقی اورصوبائی سطحوں پرایک معمول کی بات ہے۔ ان اداروں نے زبانوں کے تحفظ کے لیے کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 251 بہت واضح الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ صوبائی زبان کی تدریس اورفروغ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ”قومی زبان کا تشخص متاثرکیے بغیرصوبائی اسمبلی قانون کے مطابق‘ ایسے اقدامات کی تشخیص کرے گی ‘جن سے قومی زبان کے علاوہ صوبائی زبان کی تدریس‘ فروغ اور استعمال کوجلاملے گی۔‘‘ اب یہ صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبانوں کی حفاظت کے قوانین پاس کریں۔
یہاں یہ امر اہم ہے کہ ایک زبان کی موت صرف الفاظ کے ایک ذخیرے کی موت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ ایک شناخت، ایک ورلڈ (World View) اورایک تاریخ کی موت ہوتی ہے؛ اگرہمیں اپنی زبانوں کا تحفظ کرنا ہے‘ تواس کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے مختلف گروہوں اورتنظیموں کو کام کرنا ہوگا‘ جس کے لیے ریاست کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔
پاکستان مختلف زبانوں کا گلدستہ ہے‘ جس میں ہر زبان کا اپنا رنگ، اپنی خوشبو اور اپنا ذائقہ ہے؛ اگراس گلدستے کے رنگوں کو شاداب رکھنا ہے‘ تو ہمیں قومی زبان کے علاوہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں کی افزائش کا بھی اہتمام کرنا ہوگا۔ معروف امریکی شاعر ایذرا پاؤ نڈ (Ezra Pound) کا کہنا ہے کہ دنیا کی دانائی صرف ایک زبان تک محدود نہیں اورکوئی ایک زبان اس اجتماعی فہم کا اظہار نہیں کرسکتی۔

(دنیا)