فرانز کافکا کی تمثیل (10) ”ملبوسات‘‘ – مقبول ملک

”ملبوسات‘‘ – Kleider

اکثر جب میں ایسے لباس دیکھتا ہوں، جن پر سلوٹیں پڑی ہوتی ہیں، جن پر لیس بھی لگی ہوتی ہے تو کئی جگہوں پر میل کے ہلکے ہلکے نشانات یہ پتہ بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کافی زیادہ مرتبہ پہنا جا چکا ہے، ایسے لباس جو خوبصورت جسموں پر دیکھنے میں خوبصورت لگتے ہیں، تو میں سوچتا ہوں کہ وہ جیسے ہیں، زیادہ عرصے تک ویسے تو نہیں رہیں گے۔
پھر ان میں مستقل شکنیں پڑ جائیں گی، ایسی کہ ان سلوٹوں کو ختم کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ پھر وہ اس حد تک گرد آلود ہو جائیں گے کہ ان پر بنائے گئے سجاوٹی نقش و نگار تک میں مٹی اس طرح جم جائے گی کہ اسے نکالنا ممکن نہیں رہے گا۔
پھر تو کوئی بھی خود کو اتنا افسردہ یا اتنا مضحکہ خیز بنا کر دکھانا پسند نہیں کرے گا کہ روزانہ ایک ہی مہنگا لباس صبح سویرے پہنے اور اسے کہیں رات کو جا کر اتارے۔
لیکن یقیناً میں ایسی لڑکیاں بھی دیکھتا ہوں، جو واقعی خوبصورت ہوتی ہیں، جن کے جسموں کے پٹھے بہت جاذب نظر ہوتے ہیں اور ہڈیوں کی ساخت بہت پرکشش، جن کی جلد بڑی کھنچی ہوئی ہوتی ہے اور جو اپنے بہت باریک لیکن ڈھیروں، لمبے بالوں کی نمائش بھی کرتی ہیں۔
لیکن ایسی لڑکیاں روزانہ ہی بالکل اسی طرح کے ملبوسات میں نظر آتی ہیں، جنہیں دیکھنے والے کو ایسے لباس بظاہر بہروپ نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ وہی چہرہ انہی ہتھیلیوں پر رکھنا اور پھر یہ دیکھنا کہ وہ شیشے میں کیسا لگ رہا ہے۔
صرف کبھی کبھی رات کو، جب وہ دیر گئے کسی میلے یا تقریب سے واپس لوٹتی ہیں، تو انہیں شیشے میں اپنا یہ لباس اتنا استعمال شدہ اور پرانا ہو چکا لگتا ہے، اتنا پھولا ہوا، اتنا گرد آلود اور ہر کسی کا دیکھا ہوا، کہ اسے شاید ہی مزید پہنا جا سکتا ہو۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں