فرانز کافکا کی تمثیل (11) ”استرداد‘‘ – مقبول ملک

”استرداد‘‘ – Die Abweisung

جب مجھے کوئی خوبصورت لڑکی ملتی ہے اور میں اس سے درخواست کرتا ہوں، ’’مہربانی کرو، میرے ساتھ آ سکتی ہو۔‘‘ یہ سن کر وہ چپکے سے آگے بڑھ جاتی ہے، جس سے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، ’’نہ تو تم کوئی بہت مرعوب کر دینے والے نام کے حامل نواب یا جاگیردار ہو، نہ چوڑے سینے والے کوئی ایسے امریکی جس کے جسم سے ریڈ انڈین نسل کے باشندوں کی مضبوطی ظاہر ہوتی ہو، نہ تمہاری آنکھیں ایسی ہیں کہ تمہارے چہرے پر افقی طور پر متوازن رکھی نظر آئیں، نہ تمہاری جلد ایسی ہے کہ پتہ چلے کہ سرسبز میدانوں کی ہوائیں اور ان سے گزرنے والے دریاؤں کے پانی اس کی مالش کرتے رہے ہیں، تم نے نہ تو بڑی بڑی جھیلوں تک کی مسافت طے کی اور نہ ہی ان جھیلوں کے پانیوں پر کوئی سفر کیا، جن کے بارے میں خود میں بھی نہیں جانتی کہ انہیں ڈھونڈا کہاں جا سکتا ہے۔ اس لیے، میری درخواست ہے کہ تم سمجھ جاؤ کہ مجھے، ایک خوبصورت دوشیزہ کو، تمہارے ساتھ بھلا کیوں جانا چاہیے؟‘‘
’’تم بھول رہی ہو۔ تم اس گلی سے کسی موٹر گاڑی میں سوار ہو کر وقفے وقفے سے ہچکولے کھاتی نہیں گزر رہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے پیچھے پیچھے کوئی ایسے معزز حضرات بھی نہیں چل رہے، جن کی خاص بات ان کے بہت مہنگے، چست لباس ہوں اور جو تمہیں کمر کے پیچھے سے اپنے نیم حصار میں لیے ہوئے تمہارے کانوں میں سرگوشیوں میں اچھی اچھی باتیں کہہ رہے ہوں۔ تم نے اپنی چھاتیوں کو تو بڑے سلیقے سے اپنی انگیا میں رکھا ہوا ہے مگر تمہاری رانیں اور تمہاری پشت اس خاص پرہیز کا پتہ دے رہی ہیں، جو تم کرتی ہو۔ تم نے بظاہر ریشمی لیکن ایک سخت، چمکدار کپڑے کا بنا ہوا ایسا لباس پہنا ہوا ہے، جس کے کناروں پر لگی لیس میں چُنٹ تو ہے مگر ایسا لباس تو کہیں گزشتہ موسم خزاں میں ہم سب کے لیے بھرپور خوشی کا باعث ہوا کرتا تھا۔ اور پھر تم مسکرا بھی رہی ہو۔ یہی مسکراہٹ تو تمہاری جان کو لاحق وہ خطرہ بھی ہے، جسے تم اپنے جسم کے ساتھ ساتھ لیے پھرتی ہو۔‘‘
’’ہاں، ہم دونوں ہی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اور اس لیے کہ خود کو اسی بات کے شعور سے بچا سکیں، جو دونوں کے لیے ہی ناقابل تنسیخ ہو گا، کیا یہ اچھا نہ ہو کہ ہم علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔‘‘

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں