فرانز کافکا کی تمثیل (12) ”گلی میں کھلنے والی کھڑکی‘‘ – مقبول ملک

”گلی میں کھلنے والی کھڑکی‘‘ – Das Gassenfenster

جو اکیلے زندگی بسر کر رہا ہو اور جس کی وقفے وقفے سے یہ خواہش ہو کہ اس کا بھی کہیں کوئی تعلق ہو؛ جو دن کے وقت کے گزرتے جانے، موسم کے بدلنے، اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی صورتِ حال اور اسی طرح کے عوامل کے پیش نظر یک دم یہ چاہے کہ کوئی تو بازو ایسا نظر آئے، جسے وہ پکڑ سکے؛ وہ کسی ایسی کھڑکی کے بغیر زیادہ دیر تک یہ خواہش نہیں کر سکتا، جو باہر گلی میں کھلتی ہو۔
اگر اس کی طبیعت ایسی ہو کہ وہ بالکل ہی کسی چیز کی تلاش میں نہ ہو اور صرف ایک تھکے ہوئے انسان کی طرح کھڑکی کے چوکھٹے تک جا کر کبھی عام لوگوں اور کبھی اوپر آسمان کو دیکھنے لگتا ہو؛ پھر وہ نیچے گلی کو مزید نہ دیکھنے کے خواہش کے باعث ایک ہلکے سے جھٹکے سے اگر اپنا سر کچھ پیچھے ہٹا بھی لے؛ تو بھی نیچے سے گزرتے گھوڑے، ان کے پیچھے کھنچی چلی آ رہی گھوڑا گاڑیاں اور ان کا شور اس کے اکیلے پن کو کچلتے ہوئے بالآخر اس کی دیگر انسانوں کے ساتھ ہم آہنگی کی وجہ بن جاتے ہیں۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں