فرانز کافکا کی تمثیل (13) ”مسافر‘‘ – مقبول ملک

”مسافر‘‘ – Der Fahrgast

میں بجلی سے چلنے والی گاڑی کے آخری حصے میں کھڑا ہوں اور اس دنیا، اس شہر اور اپنے خاندان میں اپنی حیثیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قطعی بے یقینی کا شکار ہوں۔ میں سرِ راہے بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ میں اس ٹرام میں کسی بھی سمت میں کون سا دعویٰ یقین سے کر سکتا ہوں۔
میں تو اس بات کے دفاع میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میں یہاں کیوں کھڑا ہوں، کہ میں نے دوران سفر اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے ربر کا سڑیپ پکڑا ہوا ہے، کہ میں اس ٹرام میں کہیں لے جایا جا رہا ہوں، اس بات کے دفاع میں بھی کچھ نہیں کہ پلیٹ فارم پر لوگ ٹرام کو قریب آتے دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، خاموشی سے چلتے جاتے ہیں یا پھر دکانوں کی کھڑکیوں کے سامنے کچھ دیر کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ویسے کسی نے مجھ سے اس دفاع کا مطالبہ تو نہیں کیا۔ لیکن یہ بھی غیر اہم بات ہے۔
ٹرام ایک سٹاپ کے قریب پہنچتی جا رہی ہے۔ ایک لڑکی آ کر سیڑھیوں کے پاس کھڑی ہو گئی، اترنے کے لیے بالکل تیار۔ وہ مجھے اتنا واضح طور پر نظر آ رہی ہے، جیسے میں نے اسے چھو کر دیکھا ہو۔
اس کے اسکرٹ کی چُنٹ بھی ہل نہیں رہی۔ اس نے ایک تنگ بلاؤز پہنا ہوا ہے، جس کا کالر سفید نوک دار لیس سے بنا ہے۔ اس نے سہارے کے لیے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی ٹرام کی دیوار پر رکھی ہوئی ہے اور اس کے دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھتری کی نوک ٹرام کی سب سے اوپر سے نیچے والی سیڑھی کو چھو رہی ہے۔
اس لڑکی کا چہرہ بھورا ہے، اس کی ناک دونوں طرف سے تھوڑی سے اندر کو دبی ہوئی، اور اس کی نوک ہلکی سی چوڑی اور گول۔ اس کے سر پر بھورے بال بھی بہت ہیں اور داہنی کنپٹی پر باریک سے بال ہوا کی وجہ سے لہرا رہے ہیں۔ اس کا چھوٹا سا دایاں کان کچھ باہر نکلا ہونے کے بجائے کافی دبا ہوا ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں اس کے قریب ہی تو کھڑا ہوں، میں اس کے سیپی جیسے دائیں کان کا پورا پچھلا حصہ اور اس کے نرمہ گوش پر پڑنے والے سائے تک کو دیکھ سکتا ہوں۔
تب میں نے خود سے پوچھا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکی خود اپنی ہی ذات پر حیران نہیں ہے؟ کہ وہ اپنے منہ کو بند رکھے ہوئے ہے اور ایسا کچھ بھی نہیں کہتی، جو اس کی حیرت کا مظہر ہو۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)