فرانز کافکا کی تمثیل (15) ”بھائی کا قتل‘‘ – مقبول ملک

”بھائی کا قتل‘‘ – ‏Ein Brudermord

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ قتل مندرجہ ذیل انداز میں ہوا تھا:
قاتل، جس کا نام شَمار تھا، اُس چاندنی رات کو نو بجے گلی کے اُس کونے پر کھڑا ہو گیا تھا، جہاں سے مقتول کو، جس کا نام ویزے تھا، اپنے دفتر والی گلی سے نکل کر اُس گلی میں مڑنا تھا، جہاں وہ رہتا تھا۔
ہر کسی پر بارش کی طرح برستی شبینہ ہوا بہت سرد تھی۔ شَمار نے صرف ایک پتلا نیلا سوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کے اوپر پہنے ہوئے کوٹ کے بٹن کھلے تھے۔ اسے سردی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ مسلسل حرکت میں تھا۔ آلہ قتل ایک ننگی سنگین کی طرح بھی تھا اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والی ایک بڑی چھری جیسا بھی، جسے اُس نے بڑی مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ وہ جب اس لمبی چھری کو چاند کی چاندنی میں غور سے دیکھتا، تو اس کا پھل چمکنے لگتا۔ شَمار کے لیے یہ بھی کافی نہیں تھا۔ اُس نے اُسے گلی کی پختہ اینٹوں پر رگڑا، تو اس میں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔
پھر جیسے وہ اپنے کیے پر کچھ پچھتانے لگا۔ اُس نے اِس نقصان کے ازالے کے لیے اپنی ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر اِس آلہ قتل کو اپنے لمبے بوٹوں میں سے ایک کے تلوے پر ایسے رگڑا، جیسے کوئی وائلن نواز اپنے ہاتھ کو وائلن بجانے کے لیے حرکت دے رہا ہو۔ وہ آدھا آگے کی طرف جھکا ہوا تھا اور جیسے ہی اُس نے اس سنگین کو اپنے لانگ بوٹ کے تلوے پر زور سے رگڑا، تو وہ اس میں سے نکلنے والی آواز سننے کے ساتھ ساتھ اِس بات پر بھی دھیان لگائے ہوئے تھا کہ آیا ساتھ والی گلی سے کوئی آواز تو نہیں آ رہی۔
پالاس نامی وہ عام شہری، جو قریب ہی واقع ایک عمارت کی دوسری منزل کی ایک کھڑکی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، وہ آخر یہ سب کچھ کیوں برداشت کر رہا تھا؟ اِس کے لیے انسانی فطرت میں پوشیدہ پہیلیاں بوجھی جانا چاہییں۔ شَمار نے اپنے کوٹ کے کالر کھڑے کیے ہوئے تھے، ایک ڈریسنگ گاؤن کو اپنے چوڑے جسم کے گرد لپیٹا ہوا تھا اور اپنے سر کو بے یقینی سے ہلاتا ہوا وہ نیچے زمین پر ہی دیکھتا جا رہا تھا۔
اس سے صرف پانچ گھروں کے فاصلے پر، گلی کے دوسری طرف، مسز ویزے اپنے شبینہ لباس پر لومڑی کی کھال کا کوٹ پہنے اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی، جس نے آج گھر لوٹنے میں غیر معمولی حد تک تاخیر کر دی تھی۔
پھر بالآخر ویزے کے دفتر کے دروازے سے لٹکتی گھنٹی بجی۔ ایک دروازے کی گھنٹی اور اتنی تیز آواز، پورے شہر میں، آسماں تک پھیل جانے والی آواز۔ ویزے، بڑی محنت سے رات دیر تک کام کرنے والا انسان، گلی میں اس کے قدم پڑنا شروع ہوئے تھے لیکن وہ نظر ابھی تک نہیں آ رہا تھا۔ اس کے اپنے دفتر سے نکلنے کا اعلان اسی گھنٹی نے کیا تھا۔ پھر جیسے گلی کے پتھریلے راستے نے اس کے پرسکون قدموں کو گننا شروع کر دیا۔
پالاس بہت آگے تک جھک گیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کچھ بھی اس کے مشاہدے میں آنے سے رہ جائے۔ مسز ویزے نے گھنٹی کی آواز سننے کے بعد اطمینان ہو جانے پر بڑے آرام سے اپنے کمرے کی کھڑکی بند کر دی۔ شَمار کے پاس چھپانے کے لیے تب اور تو کچھ تھا نہیں، اس لیے اس نے گھٹنے ٹیک کر اپنے ہاتھ زمین پر رکھ دیے اور اپنا چہرہ بھی گلی کی پتھریلی سطح کے قریب تر کر دیا۔ اس لمحے جب سب کچھ سردی سے منجمد ہو رہا تھا، شمار کا جسم دہک رہا تھا۔
عین اس جگہ پر جہاں دونوں گلیاں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتی تھیں، ویزے رک گیا تھا۔ وہاں گلی کی نکڑ پر صرف اس کی چھڑی نظر آ رہی تھی، جس کی مدد سے چلتا ہوا وہ وہاں تک پہنچا تھا۔ پھر جیسے کسی اچانک خیال نے اسے روک لیا، رات کے وقت گہرے نیلے اور سنہری آسمان نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اس نے بڑی لاعلمی سے آسمان کی طرف دیکھا، پھر اسی لاعلمی سے اپنے سر پر رکھے ہیٹ کو اٹھا کر اپنے بالوں کو کھجایا۔ وہاں پر کچھ ایسا تھا ہی نہیں جو اسے یہ اشارہ دے سکتا کہ عنقریب ہی کیا کچھ ہونے والا تھا۔
سب کچھ تو اپنی لایعنیت والی اسی جگہ پر تھا، جس کی جانچ پڑتال ممکن ہی نہیں ہوتی۔ اپنے طور پر بہت منطقی اور قابل فہم بات تو یہ ہوتی کہ ویزے چلتا جاتا۔ لیکن شَمار کی سنگین تو اس کے انتظار میں تھی اور وہیں وہ پہنچا۔ “ویزے!” شَمار چیخا، جو اس وقت اپنے پاؤں کے پنجوں پر اس طرح کھڑا تھا کہ اس کا ایک بازو پورا باہر کو نکلا ہوا تھا اور چھری وار کرنے کے لیے تیار تھی۔
“ویزے! ژُولیا کا انتظار تو رائیگاں ہی گیا!” پھر شَمار نے پہلے ویزے کے گلے پر دائیں طرف ایک وار کیا، پھر ایک بائیں طرف اور تیسرا، گہرا وار سیدھا پیٹ میں۔ پانی میں رہنے والے چوہے بھی، اگر ان کے پیٹ چاک کر دیے جائیں تو، ایسی ہی آوازیں نکالتے ہیں، جیسی ویزے کے جسم سے نکل رہی تھیں۔
“کام تمام!” شَمار نے کہا، اور اُس نے اُس چھری کو، جو اب فولاد کا ایک بے فائدہ، خون آلود ٹکڑا تھی، اگلے ہی گھر کے سامنے پھینک دیا۔
“قتل سے حاصل ہونے والی آسودگی! سکون، بلندیوں کی طرف وہ پرواز جس کی وجہ کسی دوسرے کا بہتا خون بنتا ہے۔ ویزے، ایک بوڑھا ہو چکا سایہ شب، دوست، بیئر بینک کا ساتھی، جس کا اُبلتا خون اب گلی کی تاریک سطح پر پھیلتا جا رہا تھا۔ تم صرف خون سے بھرا ہوا ایک بلبلہ کیوں نہیں ہو، کہ میں بس تمہارے اوپر کھڑا ہو جاتا اور تم سرے سے ہی غائب اور ناپید ہو جاتے۔ خواہشیں ساری تو پوری نہیں ہوتیں۔ خواب جو پھولوں کی طرح کِھل بھی جاتے ہیں، سارے ہی ثمر بردار تو نہیں ہوتے۔ تمہارا بھاری بھر کم باقی ماندہ جسم اب یہاں پڑا ہے، جسے اب کسی بھی ٹھوکر سے بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب اس بےوقوفانہ سوال سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے، جو تم یوں پوچھ رہے ہو؟”
پالاس نے، جسے اپنے پورے جسم میں پھیلتے جا رہے زہر کے باعث اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، یکدم خود کو اپنے گھر کے دورازے کے سامنے کھڑا پایا اور دروازے کے دونوں پٹ جیسے ایک جھٹکے سے کھل گئے تھے۔ “شَمار، شَمار! سب کچھ دیکھ لیا گیا، کچھ بھی نظر انداز نہیں ہوا۔” پالاس اور شَمار نے ایک دوسرے کا بغور تنقیدی جائزہ لیا۔ اس جائزے کے نتیجے نے پالاس کو تو مطمئن کر دیا لیکن شَمار کسی بھی نتیجے تک نہ پہنچ سکا تھا۔
مسز ویزے اپنے دونوں طرف لوگوں کے ایک ہجوم کے ساتھ بڑی تیزی سے وہاں پہنچ گئی تھی اور اس کا چہرہ اس منظر کی ہیبت ناکی سے یکدم بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ لومڑی کی کھال کا بنا کوٹ کھلا اور ژُولیا اپنے شوہر ویزے کی لاش کے اوپر گر گئی۔ شبینہ لباس میں ملبوس یہ جسم اب ویزے کی ملکیت تھا اور اس مردہ جوڑے کے اوپر پڑا ہوا لومڑی کی کھال کا کوٹ کسی قبر پر اگی گھاس کی طرح وہاں موجود ہجوم کی ملکیت۔
شَمار نے، جو اپنی پوری کوشش کرتے ہوئے متلی کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھا، اپنا منہ زور سے بند کر کے ایک پولیس اہلکار کے کندھے پر رکھا ہوا تھا، جو جائے واردات سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)