فرانز کافکا کی تمثیل (16) ”تہیے‘‘ – مقبول ملک

”تہیے‘‘ – ‏Entschlüsse

خود کو کسی تکلیف دہ حالت سے نکالنا صرف شعوری طور پر ہمت کرنے سے ہی آسان ہو سکتا ہے۔ میں پوری توانائی لگا کر آرام کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں، میز کا ایک چکر لگاتا ہوں، سر اور گردن کو حرکت دیتے ہوئے ہلکی سی ورزش کرتا ہوں، آنکھوں میں کچھ چمک لاتا ہوں اور پھر آنکھوں کے ارد گرد کے پٹھوں میں کچھ تناؤ پیدا کرتا ہوں۔
پھر میں اپنے ہر احساس کی نفی کرتے ہوئے “اے” کا استقبال کرتا ہوں، جب “بی” اچانک دندناتا ہوا آ نکلتا ہے تو میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنے کمرے میں برداشت بھی کرتا ہوں، پھر “سی” کے گھر میں تمام تر تکلیف کے باوجود، اپنی پوری کوشش کے ساتھ لمبے لمبے گھونٹ بھرتے ہوئے وہ سب کچھ بھی نگل جاتا ہوں جو وہاں کہا جا رہا ہوتا ہے۔
تب اگر ایسا ہوتا بھی رہے، تو ہر اس غلطی کے ساتھ جس سے مکمل طور پر بچا ہی نہیں جا سکتا، یہی عمل، چاہے وہ آسان ہو یا مشکل، مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور میں دوبارہ سکڑ کر اپنے ہی دائرے کی پناہ میں لوٹنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
اس لیے بہترین مشورہ تو یہی ہے کہ ہر چیز کو قبول کر لیا جائے، لیکن اس دوران رویہ ایسا رہے، جیسے اندر کوئی بہت باحجم اور بھاری شے رکھی ہو۔ تب اگر کسی بہاؤ کے ساتھ بہتے جانے کا احساس پیدا ہونے لگے تو ایسی ہر ترغیب سے بچا جائے جس کے نتیجے میں کوئی ایک بھی غیر ضروری قدم اٹھایا جا سکتا ہو۔
اس دوران دوسروں کو حیوانوں کی سی نظروں سے دیکھا جائے اور کسی قسم کا پچھتاوا محسوس نہ کیا جائے، مختصر یہ کہ پھر اس ڈراؤنی زندگی کے عفریت میں سے جو کچھ بھی باقی بچے، اس کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر کی طرح کے آخری سکون کو طوالت اور وسعت دی جائے اور اس کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہنے دیا جائے۔
ایسی کسی حالت کی خاص پہچان ہاتھ کی چھوٹی انگلی بھنوؤں پر پھیرتے رہنا ہوتی ہے۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں