فرانز کافکا کی تمثیل (17) ”قریب سے گزرنے والے‘‘ – مقبول ملک

”تہیے‘‘ – ‏Die Vorüberlaufenden

جب ہم رات کے وقت چہل قدمی کرتے ہوئے کسی گلی سے گزر رہے ہوں اور سامنے سے کوئی ایسا شخص دوڑتا ہوا آ رہا ہو جو پورے چاند کی چاندنی میں مسلسل چڑھائی والی گلی میں کافی دور سے ہی ہمیں اپنی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے، تو ہم اسے روکنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اگر وہ جسمانی طور پر کمزور اور چیتھڑوں میں ملبوس ہو، تو بھی نہیں۔ تب بھی نہیں، اگر کوئی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے چیخ بھی رہا ہو۔ ایسے کسی شخص کو تو ہم بس اپنے قریب سے گزر ہی جانے دیں گے۔
اس لیے کہ ایک تو رات کا وقت ہو اور پھر اس میں ہمارا کیا قصور کہ پورے چاند کی چاندنی میں یہ گلی مسلسل بلندی کی طرف جاتی ہے۔ پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں افراد محض اپنی مشترکہ تفریح کے لیے ایسا کر رہے ہوں۔ یا پھر شاید دونوں کسی تیسرے کا پیچھا کر رہے ہوں۔ ممکن ہے کہ پہلے شخص کا ناجائز ہی پیچھا کیا جا رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرا پہلے کو قتل کرنا چاہتا ہو اور ہم بھی قتل میں معاونت کے الزام میں دھر لیے جائیں۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دونوں کو شاید ایک دوسرے کا علم ہی نہ ہو اور دونوں علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے گھر میں بستر کی طرف جا رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں کو رات کے وقت خواب میں چلنے کی بیماری ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید پہلے شخص کے پاس کوئی ہتھیار ہو۔
اور پھر، کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم تھکاوٹ محسوس کریں، کیا ہم نے بہت زیادہ وائن نہیں پی تھی؟ ہم تو خوش ہیں کہ اب وہ دوسرا شخص بھی کافی دیر سے ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں