فرانز کافکا کی تمثیل (18) ”اچانک سیر‘‘ – مقبول ملک

”تہیے‘‘ – ‏Der plötzliche Spaziergang

شام کے وقت جب انسان بظاہر یہ حتمی فیصلہ کر چکا ہو کہ اب وہ گھر میں ہی رہے گا، جب وہ گھر میں زیب تن کیا جانے والا لباس بھی پہن چکا ہو، رات کا کھانا کھانے کے بعد جب وہ میز کے سامنے روشنی کے نیچے بیٹھا کوئی کام کر رہا ہو یا کوئی کھیل کھیلنے کا ارادہ کر چکا ہو، ایسی مصروفیات جن کے بعدحسب عادت صرف سونے کے لیے بستر کا رخ ہی کیا جاتا ہے۔
پھر جب باہر موسم بھی بہت خراب ہو، ایسا موسم جس کے پیش نظر گھر پر ہی رہنے کی سوچ خود بخود لازمی سی ہو جاتی ہے، اس کے بعد جب انسان میز کے سامنے بیٹھا خاموشی سے اتنا وقت گزار چکا ہو کہ پھر باہر جانے کے فیصلے کا عمومی حیرانی کا باعث بننا بھی لازمی ہو چکا ہو، تب اگر سیڑھیاں بھی مکمل تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوں اور گھر کے مرکزی دروازے کو بھی تالہ لگا ہوا ہو۔
پھر ان تمام عوامل کے باوجود اگر کوئی یکدم بڑی بےچینی سے اٹھ کھڑا ہو، کپڑے بدلے اور فوراً ایسا نظر آنے لگے کہ وہ باہر جانے کے لیے مناسب لباس پہنے ہوئے ہو، تب وہ اس بات کی وضاحت بھی کر دے کہ اسے لازماً باہر جانا ہے، اس وضاحت کے بعد وہ جلدی سے خدا حافظ کہتے ہوئے اپنے ارادے پر عمل بھی کر گزرے، تو پھر اس جلدبازی کے ساتھ، جس کے ساتھ ایسا کوئی شخص اپنے پیچھے اپنے فلیٹ کا دروازہ بند کرتا ہے، اسے کسی نہ کسی حد تک یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے غصے اور ناخوشی کا ماحول چھوڑے جا رہا ہے۔
اس وقت جب ایسا کوئی شخص خود کو دوبارہ گلی میں موجود پاتا ہے، تو اس کے ہاتھ پاؤں اس غیر متوقع آزادی کا جواب، جو وہ ا پنے ان اعضاء کو دے چکا ہوتا ہے، اپنے آزادانہ اور غیر معمولی حد تک متحرک انداز میں دیتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان محسوس کرتا ہے کہ اس نے اپنے اس ایک فیصلہ کن قدم کے ساتھ اپنے اندر ہر قسم کے فیصلہ کن اقدامات کی صلاحیت یکجا کر لی ہے۔
جب انسان معمول سے بھی زیادہ بامعنی انداز میں یہ جان جاتا ہے کہ اس میں تو اس بات کی ضرورت سے کہیں زیادہ طاقت موجود ہے کہ وہ بڑی آسانی سے انتہائی تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ بن سکتا ہے اور ان تبدیلیوں کا سامنا بھی کر سکتا ہے، پھر اسی حالت میں جب وہ لمبی گلیوں میں چلتا رہتا ہے، تو کم از کم اس رات کے لیے تو جیسے وہ اپنے خاندان کا رکن بالکل رہتا ہی نہیں۔ تب اس کا خاندان اس کے لیے کوئی ایسی غیر مرئی چیز بن جاتا ہے، جو مسلسل مبہم ہوتی جا رہی ہو۔
عین اس وقت وہی انسان، ایک ٹھوس جسم جو اندھیرے میں ایک سیاہ ہیولے میں لپٹا ہوتا ہے، اپنی ران کے پچھلے حصے پر ہاتھ مارتے اور خود کو بلند کرتے ہوئے اپنی اصل اور ارفع ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ اس حالت کو مزید تقویت اس وقت ملتی ہے جب اتنی رات گئے وہ کسی ایسے دوست کی تلاش کرے، جسے مل کر یہ پتہ چلایا جائے کہ وہ کیسا ہے۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں