فرانز کافکا کی تمثیل (19) ”پہاڑوں میں سیر‘‘ – مقبول ملک

”پہاڑوں میں سیر‘‘ – ‏Der Ausflug ins Gebirge

“میں نہیں جانتا،” میں بے آواز ہی پکار اٹھا۔ “مجھے تو پتہ ہی نہیں۔ اگر کوئی نہیں آتا، تو نہیں آتا۔ میں نے کسی کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی۔ کسی نے میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی۔ لیکن میری مدد کرنا بھی کوئی نہیں چاہتا۔
“بہت سے ہیچ کس۔ لیکن ایسا تو ہے ہی نہیں۔ صرف کوئی ہیچ کس میری مدد نہیں کرتا۔ ورنہ بہت سے لااحد خوبصورت ہوتے۔ میں بہت سے ہیچ کسوں کی صحبت میں سیر کو جانا چاہوں گا۔ اور ایسا بھلا ہو بھی کیوں نہ۔ مگر صرف پہاڑوں میں، اور بھلا کہاں؟
“یہ بہت سے لااحد کس طرح ایک ہجوم کی صورت آگے بڑھ رہے ہوں گے، بہت سے باہر نکلے ہوئے بازو، ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے۔ بہت سے پاؤں، جن کو ان کے چھوٹے چھوٹے قدم ایک دوسرے سے علیحدہ کرتے ہوں گے۔ ان سب ہیچ کسوں نے ٹیل کوٹ پہنے ہوئے ہوں۔ ہم خراماں خراماں جا رہے ہوں اور ہوا ہمارے درمیان میں سے اور ان خالی جگہوں میں سے گزر رہی ہو، جو چلتے چلتے ہمارے بازو اور ٹانگیں خالی چھوڑ دیتے ہیں۔
“پہاڑوں میں ہمارے گلے زیادہ کھلے اور آزاد ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم نے گانا شروع نہیں کر دیا۔”

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں