فرانز کافکا کی تمثیل (20) ”کنوارے کی بدقسمتی‘‘ – مقبول ملک

”کنوارے کی بدقسمتی‘‘ – ‏Das Unglück des Junggesellen

کنوارے رہنا بھی کتنا برا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ کوئی شام گزارنے کے خواہش مند کسی بوڑھے آدمی کے طور پر انسان کو اپنے وقار کو بمشکل قائم رکھتے ہوئے دعوت کے لیے درخواست کرنا پڑتی ہے، وہ بیمار ہو جائے تو اسے کئی ہفتوں تک کونے میں لگے اپنے بستر سے کمرے کے خالی پن کو دیکھتے رہنا پڑتا ہے۔
اسے دوسروں کو ہمیشہ گھر کے مرکزی دروازے پر ہی الوداع کہنا پڑتا ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنی بیوی کے ساتھ اوپر جائے، اس کے کمرے میں صرف ایسے دروازے ہوتے ہیں جن کے پیچھے دوسرے لوگوں کی رہائش گاہیں ہوتی ہیں اور وہ اپنا رات کا کھانا ایک ہاتھ میں پکڑے ہوئے گھر لوٹتا ہے۔
اسے دوسروں کے بچوں کی تعریفیں کرنا پڑتی ہیں لیکن اس دوران وہ گفتگو کرتے کرتے یہ بھی نہیں کہہ سکتا، “میرے اپنے کوئی بچے نہیں ہیں۔” اس کے لڑکپن کی یادوں میں جو ایک یا دو کنوارے کبھی رہے ہوتے ہیں، وہ اپنے طور پر انہی کی طرح دکھائی دینے اور انہی جیسے رویے کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
پھر ایسا ہی ہو گا، کہ وہ واقعی آج اور آج کے بعد بھی سچ مچ کہیں کھڑا ہو گا، اپنے جسم اور سچ مچ کے سر کے ساتھ، اور اپنے ماتھے کے ساتھ بھی، اور اس ہاتھ کے ساتھ بھی جس کی ہتھیلی وہ اپنے ماتھے پر پٹخ سکے۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں