”ایک پرانا صفحہ‘‘ – Ein altes Blatt
لگتا ہے جیسے ہمارے وطن کے دفاع میں بہت کچھ نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ ہم اپنے اپنے کام پر جاتے رہے تھے اور ہم نے دفاع پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے کے واقعات ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ میری اب شاہی محل کے سامنے چوک میں جوتے مرمت کرنے کی ایک دکان ہے۔
صبح منہ اندھیرے جب میں اپنی دکان کھولتا ہوں؛ تو مجھے ان مقامات پر مسلح افراد قابض نظر آتے ہیں، جہاں سے چوک تک پہنچنے والی تمام گلیاں شروع ہوتی ہیں۔ لیکن یہ ہمارے فوجی تو نہیں بلکہ بظاہر شمال سے آنے والےخانہ بدوش ہیں۔
وہ ایک ایسے انداز میں دارالحکومت کے اندر تک گھس آئے ہیں، جو میرے لیے بالکل بھی قابل فہم نہیں، حالانکہ دارالحکومت تو سرحد سے بہت دور ہے۔ بہرحال اب تو وہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہر نئی صبح ان کی تعداد اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
اپنی فطرت کے عین مطابق انہوں نے اپنے خیمے کھلے آسمان کے نیچے لگا رکھے ہیں، اس لیے کہ وہ رہائشی مکانات کو پسند نہیں کرتے۔ وہ خود کو اپنی تلواروں کو تیز کرتے، تیروں کے پھل نوکیلے بناتے اور گھڑ سواری کی مشقیں کرتے رہنے کے ساتھ مصروف رکھتے ہیں۔
اس بہت پرسکون اور پرامن چوک کو، جسے بڑی فکر مندی سے بہت صاف رکھا جاتا تھا، سچ مچ کے ایک اصطبل میں بدل دیا گیا ہے۔ ہم کبھی کبھی اپنی دکانوں سے دوڑ کر نکلتے اور کم از کم وہاں ہر طرف پائی جانے والی شدید گندگی کو صاف کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں، لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے اور یہ کاوش اس وجہ سے بھی رائیگاں جاتی ہے کہ ہمیں گھوڑوں کے سموں تلے کچلے جانے یا سزا کے طور پر کوڑے مار مار کر زخمی کر دیے جانے کا خطرہ بھی درپیش رہتا ہے۔
ان خانہ بدوشوں کے ساتھ کوئی بات اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہماری زبان سے تو ناواقف ہیں اور ان کی اپنی زبان تو شاید کوئی ہے ہی نہیں۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کی باتوں کو خاکستری گردن والے چھوٹے کوے کے سے انداز میں سمجھتے ہیں۔ وہ جب بھی آپس میں کوئی بات چیت کرتے ہیں، تو بار بار ان کی انہی چھوٹے کوؤں کی چیخوں جیسی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
ہمارا طرز زندگی اور ہمارے ادارے ان کے لیے اتنے ہی ناقابل فہم ہیں، جتنا کہ وہ ان کے بارے میں لاپرواہی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ اسی عدم تفہیم اور لاپرواہی کے نتیجے میں ان کے رویوں سے اشاروں کی ہر قسم کی زبان کے رد کیے جانے کا پتہ بھی چلتا ہے۔ آپ چاہیں تو اپنی کوشش کر کے دیکھ لیں، اشاروں کی زبان استعمال کرتے ہوئے آپ کے جبڑے لٹک جائیں گے اور کلائیوں کے جوڑ جیسے ٹوٹنے کو ہوں گے، لیکن یہ خانہ بدوش نہ تو آپ کی بات سمجھتے ہیں اور نہ ہی کبھی سمجھ پائیں گے۔
وہ اکثر بڑی مضحکہ خیز شکلیں بناتے ہیں، جس دوران ان کی آنکھوں کے سفید حصے عجیب و غریب انداز میں گھومنے لگتے ہیں اور ان کے منہ سے جھاگ ابلنے لگتی ہے۔ لیکن اس طرح وہ نہ تو کچھ کہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی کو ڈرانا۔ وہ تو ایسا محض اس لیے کرتے ہیں کہ یہ بس ان کا اپنا ہی مخصوص انداز ہے۔
انہیں جو کچھ بھی چاہیے ہوتا ہے، وہ لے لیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ طاقت یا تشدد کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ جب کسی چیز پر ہاتھ ڈالتے ہیں، تو انسان خود ہی ایک طرف کو ہو جاتا ہے اور سب کچھ انہی پر چھوڑ دیتا ہے۔ میرے پس انداز کیے ہوئے وسائل میں سے بھی وہ کئی اچھی چیزیں لے چکے ہیں۔ لیکن میں اس بارے میں کوئی شکایت نہیں کر سکتا، مثال کے طور پر اگر میں یہ دیکھوں کہ میری دکان کے سامنے والے قصاب کی حالت کیسی ہے۔
وہ جیسے ہی بیچنے کے لیے گوشت اپنی دکان پر لاتا ہے، یہ خانہ بدوش سارے کا سارا اس سے چھین کر شڑپ شڑپ کرتے ہوئے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان کے تو گھوڑے بھی گوشت کھاتے ہیں۔ اکثر کوئی نہ کوئی سوار اپنے گھوڑے کے پاس ہی زمین پر لیٹا ہوتا ہے اور دونوں اپنے اپنے آگے سے لیکن گوشت کے ایک ہی بڑے ٹکڑے سے پیٹ بھر رہے ہوتے ہیں۔
قصاب خوفزدہ رہتا ہے اور یہ سوچنے کی تو اس کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ وہ اپنی دکان کے لیے گوشت کی ترسیل رکوا دے۔ ہم لیکن اس بات کو سمجھتے ہیں اور رقم جمع کر کے اس کی مدد کرتے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ اگر خانہ بدوشوں کو کھانے کے لیے گوشت نہ ملا تو وہ کیا کر گزریں۔ مگر یہ بھی کون جانتا ہے کہ جب ان کو روزانہ گوشت ملتا رہے، تو پھر بھی وہ کب کیا کر گزرنے کی ٹھان لیں۔
پھر آخرکار قصاب نے یہ سوچا کہ وہ کم از کم اپنی وہ محنت تو بچا ہی سکتا ہے، جو وہ گوشت کے لیے جانور ذبح کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اگلی صبح وہ اپنے ساتھ ایک زندہ بیل لے آیا۔ لیکن اسے کبھی بھی دوبارہ ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرنا چاہیے۔ میں اپنی دکان میں بالکل پیچھے جا کر پورے ایک گھنٹے تک زمین پر چت لیٹا رہا تھا اور میں نے وہاں رکھے ہوئے اپنے سبھی کپڑے، کمبل اور گدے وغیرہ اپنے اوپر ایک ڈھیر کی شکل میں جمع کر لیے تھے۔
میں صرف اس بیل کے شدید تکلیف سے بہت اونچی آواز میں ڈکرانے کو سننے سے بچناچاہتا تھا۔ خانہ بدوش تو ہر طرف سے اس پر چڑھ دوڑے تھے اور اپنے دانتوں سے اس کے زندہ جسم سے گرم گوشت کے ٹکڑے ادھیڑتے جاتے تھے۔ پھر کافی دیر تک خاموشی چھائے رہنے کے بعد میں نے اٹھ کر باہر نکلنے کی ہمت کی۔ خانہ بدوش اس بیل کے بچے کھچے ڈھانچے کے ارد گرد تھکے ہوئے ایسے لیٹے پڑے تھے جیسے بہت سے شرابی وائن کے کسی بیرل کے چاروں طرف۔
اسی لمحے مجھے ایسے لگا کہ میں نے خود بادشاہ کو محل کی ایک کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا ہے۔ بادشاہ تو ہمیشہ صرف محل کے سب سے اندرونی باغ میں رہتا تھا اور یوں محل کے سب سے باہر والے حصے میں تو وہ کبھی آتا ہی نہیں تھا۔ اس بار لیکن بادشاہ ایک کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا، یا کم از کم مجھے ایسا ہی لگا، اور سر جھکائے یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے محل کے سامنے کیا کچھ ہو رہا ہے۔
“اب کیا ہو گا،” ہم سب ہی یہ پوچھتے ہیں، “ہم یہ بوجھ اور اذیت کب تک برداشت کریں گے۔ شاہی محل کی کشش کی وجہ سے یہ خانہ بدوش یہاں تک آ تو گئے ہیں، لیکن محل اور اس کے مکین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان خانہ بدوشوں کو یہاں سے نکالا کیسے جائے۔ محل کا دروازہ بند رہتا ہے اور وہ پہرے دار، جو اپنے فرائض کے لیے پہلے ہمیشہ ایک باقاعدہ تقریب کی صورت میں آتے جاتے تھے، اب محل کے اندر جنگلے لگی کھڑکیوں کے پیچھے ہی رہتے ہیں۔
وطن کو بچانے کا کام ہم دستکاروں اور کاروباری لوگوں کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔ لیکن ہمیں تو ایسے کسی فریضے کی انجام دہی کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے۔ ہماری تو ایسی کوئی شہرت بھی نہیں ہے کہ ہم اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے اور اس دوران ہم برباد ہو جائیں گے۔”
مصنف: فرانز کافکا
(کافکا کی اس تمثیل کا انگریزی میں ترجمہ An Old Manuscript کے ٹائٹل کے ساتھ بھی شائع ہوا ہے، جس کی وجہ سے اسی تحریر کے کچھ اردو تراجم کو “ایک پرانا مسودہ” کا عنوان بھی دیا گیا تھا۔ لیکن خود کافکا نے اسے جرمن میں جو عنوان دیا، اس کے مطابق اردو ٹائٹل “ایک پرانا صفحہ” ہی بنتا ہے۔)
مترجم: مقبول ملک
(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)