فرانز کافکا کی تمثیل (22) ”گھر کا راستہ‘‘ – مقبول ملک

”گھر کا راستہ‘‘ – ‏Der Nachhause Weg

دیکھو تو طوفان باد و باراں کے بعد ہوا اپنے اندر کتنی قائل کر دینے والی طاقت لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اگر میں کوئی مزاحمت نہ بھی کروں تو بھی کس طرح میری خدمات اور خصوصیات مجھ پر ظاہر ہوتی اور غالب آ جاتی ہیں۔ میں پیدل چلتا جا رہا ہوں اور میری رفتار گلی کے اِس پوری طرف، پوری گلی بلکہ شہر کے اس پورے علاقے کی رفتار بن چکی ہے۔

میں بجا طور پر ذمے دار ہوں، ان زور دار دستکوں کا جو دروازوں پر دی جاتی ہیں یا میزوں کی ہموار سطح پر ہاتھوں کے مارے جانے کا، ان ساری باتوں کا جو جام اٹھا کر پینے سے پہلے کہی جاتی ہیں، اپنے بستروں میں موجود محبت کرنے والے جوڑوں کا، لکڑی اور فولادی پائپوں سے بنے ان تعمیراتی ڈھانچوں کا جو نوتعمیر شدہ عمارات کے باہر کھڑے کیے ہوتے ہیں، جو تاریک گلیوں میں گھروں کی دیواروں کے ساتھ لگے ہوتے ہیں، اور آرام دہ نشستوں والے ان دیوانوں کا بھی جو قحبہ خانوں میں رکھے ہوتے ہیں۔

میں اپنے ماضی کے مقابلے میں اپنے مستقبل کا اندازہ لگا رہا ہوں۔ مجھے دونوں ہی قابل مدح محسوس ہوتے ہیں اور میں دونوں میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ مجھے قدرت کی اس ناانصافی کی سرزنش بھی کرنا چاہیے، جس کا فائدہ مجھے ہی ہوا ہے۔

لیکن جب میں اپنے کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو خود کو تھوڑا سا غور و فکر میں مبتلا پاتا ہوں، حالانکہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے تو میرے ذہن میں ایسا کچھ نہیں آیا تھا، جو غور و فکر کے قابل رہا ہو۔ اس دوران مجھے اس بات سے بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ میں کھڑکی پوری ہی کھول دوں اور نیچے کسی باغ میں موسیقی بج رہی ہو۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں