فرانز کافکا کی تمثیل (23) ”ناخوشی‘‘ – مقبول ملک

”ناخوشی‘‘ – ‏Unglücklichsein

نومبر کی ایک شام جب سب کچھ ناقابل برداشت ہو گیا تھا تو میں جلدی سے چلتا چلتا اپنے کمرے میں بچھے کم چوڑائی والے قالین کے آخر تک ایسے گیا جیسے میں دوڑ کے کسی میدان میں تھا۔ پھر باہر روشن گلی پر نظر پڑتے ہی میں سہم گیا اور دوبارہ پلٹا تو مجھے کمرے کی گہرائی میں شیشے کے اندر پھر ایک نئی منزل مل گئی۔ میں زور سے چیخا تو مجھے محض اپنی چیخ ہی سنائی دی۔ اس چیخ کو نہ تو کوئی جواب ملا اور نہ ہی کسی شے نے اس سے اس کی طاقت چھینی۔ کسی موازن قوت کے بغیر وہ اور اونچی ہو گئی تھی اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، اس وقت بھی جب اسے سننا ممکن نہیں رہا تھا۔
پھر دیوار میں بنا دروازہ تیزی سے میری طرف کو کھلا، اس لیے کہ تیزی ضروری ہو چکی تھی، اور نیچے پتھریلی گلی سے گزرنے والے بگھیوں کے گھوڑے یکدم ہوا میں اٹھنے لگے، جیسے کسی لڑائی میں بپھر جانے والے گھوڑوں نے اپنی گردنیں دشمن کے سامنے ننگی کر دی ہوں۔ ایک چھوٹے سے بھوت کی طرح ایک بچی ایک ایسی تاریک راہداری سے نکلی جہاں لائٹ ابھی جلی نہیں تھی۔ وہ اپنے پنجوں پر زمین پر پڑے ایک ایسے تختے پر کھڑی رہی جو غیرمحسوس انداز میں ہل رہا تھا۔
کمرے میں شفق کی وجہ سے اس کی آنکھیں یکدم چندھیا گئی تھیں اور اس نے جلدی سے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپا لینا چاہا۔ لیکن پھر غیر متوقع طور پر کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے وہ کچھ پرسکون ہو گئی تھی، جہاں سٹریٹ لائٹ کے قریب سے اوپر کو اٹھتے ہوئے بخارات اندھیرے میں بالآخر کھڑکی کے بیرونی چوکھٹے پر جم سے گئے تھے۔
وہ کھلے دروازے کے سامنے اپنی دائیں کہنی کمرے کی دیوار کے ساتھ لگائے اپنا توازن برقرار رکھے ہوئے تھی اور باہر سے اندر آنے والی ہوا گزرتے ہوئے اس کے پیروں، گردن اور کنپٹیوں کو سہلا رہی تھی۔ میں نے یہ منظر کچھ دیر کے لیے دیکھا اور کہا، “تمہارے لیے ایک اچھے دن کی خواہش۔” پھر میں نے آتشدان کے پاس کھونٹی پر لٹکی اپنی جیکٹ اٹھا کر پہن لی کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ نیم عریاں حالت میں وہاں کھڑا رہوں۔
پھر کچھ دیر کے لیے میں نے اپنا منہ کھلا رکھا کہ شاید میرا تذبذب منہ کے راستے ہی میری ذات سے نکل جائے۔ میرے منہ کا ذائقہ خراب ہو چکا تھا اور چہرے پر میری پلکیں کانپ رہی تھیں۔ مختصر یہ کہ اس ملاقات کے سوا، جو بہرحال متوقع تھی، مجھے کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں تھی۔
وہ بچی ابھی تک دیوار سے لگی ایک ہی جگہ کھڑی تھی۔ وہ اپنا دایاں ہاتھ دیوار پر دبائے ہوئے تھی اور اس کے گال اس وجہ سے بالکل گلابی ہو چکے تھے کہ دیوار پر کی گئی سفیدی کے بعد اس کی سطح پر موٹے موٹے دانے ابھر آئے تھے جو اس کی انگلیوں کی آخری پوروں میں چبھ رہے تھے۔ میں نے کہا، “کیا آپ واقعی میری طرف آنا چاہتی ہیں؟ یہ کوئی غلطی تو نہیں؟ اس بڑی عمارت میں انسان سے غلطی تو آسانی سے ہو سکتی ہے۔ میرا نام فلاں فلاں ہے، تیسری منزل پر رہتا ہوں۔ تو کیا میں ہی وہ ہوں، جس سے آپ ملاقات کرنا چاہتی ہیں؟”
“بس، بس،” اس بچی نے اپنے کندھوں سے پرے دیکھتے ہوئے کہا، “سب کچھ ٹھیک ہی تو ہے۔”
“تو پھر اندر کمرے میں آ جائیے، میں دروازہ بند کرنا چاہوں گا۔”
“دروازہ تو میں نے ابھی ابھی بند کر دیا۔ کوئی تکلیف نہ کریں۔ صرف پرسکون ہو جائیے۔”
“تکلیف کی بات نہیں ہے۔ عمارت کی اس راہداری میں بھی کافی زیادہ لوگ رہتے ہیں، جن سب کو ظاہر ہے میں جانتا ہوں۔ ان میں سے اکثر اس وقت کام کاج سے واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ جب ان کو کسی کمرے سے گفتگو کی آواز آتی ہے، تو ان کے خیال میں یہ ان کا حق بن جاتا ہے کہ وہ دروازہ کھولیں اور دیکھیں کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ لوگ تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے روزانہ کے کام کاج سے تو فارغ ہو چکے۔ اب شام کو اپنی عارضی آزادی کے اس وقت وہ بھلا خود کو کسی کا ماتحت کہاں بنائیں گے۔ یہ بات آپ بھی جانتی ہی ہیں۔ مجھے دروازے بند کر لینے دیجیے۔”
“ہاں، تو پھر؟ بات کیا ہے؟ میری طرف سے اس پوری عمارت کے رہائشی یہاں اندر تک آ جائیں۔ اور میں پھر ایک بار کہتی ہوں کہ میں دروازہ بند کر چکی ہوں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دروازہ صرف آپ ہی بند کر سکتے ہیں؟ میں نے تو تالے میں لگی چابی بھی گھما دی ہے۔”
“پھر تو ٹھیک ہے۔ اور تو میں کچھ چاہتا بھی نہیں۔ آپ کو چابی کے ساتھ دورازے کو بند کر دینے کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اب جب کہ آپ یہاں موجود ہیں، تو پھر سکون سے بیٹھیے۔ آپ میری مہمان ہیں۔ مجھ پر پورا اعتماد کیجیے۔ کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر تشریف رکھیے۔ میں نہ تو آپ کو یہاں رکنے پر مجبور کروں گا اور نہ ہی یہاں سے چلے جانے پر۔ ویسے کیا مجھے یہ کہنے کی ضرورت بھی ہے؟ کیا آپ مجھے اتنا کم جانتی ہیں؟”
“نہیں! آپ کو یہ کہنے کی ضرورت واقعی تھی تو نہیں۔ مزید یہ کہ آپ کو یہ کہنا چاہیے بھی نہیں تھا۔ میں تو محض ایک بچی ہوں۔ میرے لیے اتنی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟”
“اب یہ اتنی بری بات بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے، ایک بچی۔ لیکن آپ اتنی چھوٹی بچی بھی نہیں ہیں۔ آپ کافی بڑی ہو چکی ہیں۔ اگر آپ کوئی جوان لڑکی ہوتیں، تو آپ اس طرح خود کو میرے ساتھ ایک کمرے میں بند نہ کرتیں۔”
“ہمیں اس بارے میں کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتی تھی: میں آپ کو اتنا اچھی طرح جانتی ہوں، یہ بات بھی میری حفاظت کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ بس اس کوشش سے بچ گئے ہیں کہ میرے سامنے جھوٹ بول سکیں۔ اس کے باوجود آپ میرے لیے تریفی کلمات کہہ رہے ہیں۔ یہ رہنے دیں۔ میں آپ سے مطالبہ کرتی ہوں کہ یہ بس رہنے دیں۔ مزید یہ کہ میں آپ کو مکمل طور پر تو جانتی بھی نہیں، اور اس تاریکی میں تو بالکل بھی نہیں۔ بہت اچھا ہوتا کہ آپ لائٹ جلا دیتے۔ نہیں، بہتر ہے، نہیں۔ یہ بات تو میں اب بھی محسوس کر سکتی ہوں کہ آپ نے مجھے دھمکی دی ہے۔”
“ہیں؟ میں نے آپ کو دھمکی دی ہے؟ وہ کیسے؟ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں۔ میں تو اتنا خوش ہوں کہ آپ بالآخر یہاں موجود ہیں۔ میں کہہ رہا ہوں، “بالآخر”، کیونکہ اب تو اتنی دیر ہو چکی ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ آپ اتنی دیر سے کیوں آئیں۔ یہ ممکن ہے کہ میں نے اس خوشی میں کچھ غلط بول دیا ہو اور آپ نے اس کو ویسے سمجھ لیا ہو، جیسے آپ کہہ رہی ہیں۔ میں اس طرح بولا، اس کا میں دس مرتبہ اعتراف کرتا ہوں۔ میں نے آپ کو ہر قسم کی دھمکیاں دیں، جو بھی آپ چاہیں۔ بس کوئی جھگڑا نہیں، خدا کے واسطے۔ لیکن آپ نے ایسی کوئی بات سوچی بھی کیسے؟ آپ مجھے اس طرح کوئی چوٹ کیسے لگا سکتی ہیں؟ آپ اپنی پوری کوشش کرتے ہوئے میرے ساتھ اپنی یہاں موجودگی کے اس مختصر سے وقت کو اس طرح برباد کیسے کر سکتی ہیں؟ آپ کے مقابلے میں کوئی اجنبی تو میرا شکرگزار ہوتا۔”
“میں آپ کی بات پر یقین کر سکتی ہوں۔ یہ کوئی دانش مندی نہیں تھی۔ میں تو فطرتاً پہلے ہی آپ کی اتنی شکرگزار ہوں جتنا کوئی اجنبی ہو سکتا ہے۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں۔ تو پھر یہ دل سوزی کس وجہ سے؟ کہیے کہ آپ یہاں کوئی مزاحیہ کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، تو میں ابھی یہاں سے چلتی ہوں۔”
“اچھا؟ آپ نے مجھے یہ کہنے کی ہمت بھی کر لی۔ آپ کچھ زیادہ ہی بہادر ہیں۔ آخرکار آپ ہیں تو میرے ہی کمرے میں۔ آپ پاگلوں کی طرح اپنی انگلیاں میری دیوار پر رگڑ رہی ہیں۔ میرا کمرہ، میری دیوار! اور اس کے علاوہ آپ جو کچھ کہہ رہی ہیں، وہ مضحکہ خیز ہونے کے علاوہ تضخیک آمیز بھی ہے۔ آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ کی فطرت آپ کو مجبور کر رہی ہے کہ میرے ساتھ اس طرح بات کریں۔ واقعی؟ آپ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہیں؟ بڑی نوازش ہے آپ کی فطرت کی۔ آپ کی فطرت میری فطرت بھی ہے۔ اگر میں اپنی فطرت کی وجہ سے آپ کے ساتھ دوستانہ طریقے سے پیش آ رہا ہوں، تو کچھ مختلف تو آپ کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔”
“یہ دوستانہ طریقہ ہے؟”
“میرا مطلب ہے جو اب سے پہلے تھا۔”
“کیا آپ جانتے ہیں کہ میں بڑی ہو کر کیسی ہوں گی؟”
“نہیں، میں کچھ نہیں جانتا۔” میں اپنے بستر کے ساتھ والی چھوٹی میز تک گیا، جس پر میں نے ایک موم بتی جلا دی۔ تب میرے کمرے میں نہ تو گیس تھی اور نہ ہی بجلی کے بلب۔ میں کچھ دیر کے لیے میز کے پاس ہی بیٹھ گیا، یہاں تک کہ میں وہاں بیٹھے رہنے سے بھی اکتا گیا۔ پھر میں نے اوورکوٹ پہنا، صوفے سے اپنا ہیٹ اٹھایا اور موم بتی بجھا دی۔ جب میں باہر جا رہا تھا تو میرا پاؤں کرسی کی ایک ٹانگ سے ٹکرا بھی گیا تھا۔ سیڑھیوں میں مجھے میری ہی منزل پر رہنے والا ایک کرائے دار مل گیا۔
“تم پھر ایک بار باہر جا رہے ہو، بدمعاش؟” یہ سوال پوچھتے ہوئے وہ اپنی ٹانگیں پھیلائے دو سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔
“میں کیا کروں،” میں نے کہا، “میں ابھی ابھی اپنے کمرے میں ایک بھوت کا سامنا کر کے آ رہا ہوں۔”
“یہ تو آپ اتنی ہی بیزاری سے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کو کھانے کے دوران سوپ میں کوئی بال نظر آ گیا ہو۔”
“آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ بھوت تو بھوت ہوتا ہے۔”
“بالکل درست۔ لیکن اگر کوئی بھوتوں پر سرے سے یقین ہی نہ رکھتا ہو، تو آپ کیا کہیں گے؟”
“تو آپ کا مطلب کیا یہ ہے کہ میں بھوتوں پر یقین رکھتا ہوں؟ لیکن ان پر یقین نہ ہونا بھی میرے کس کام کا؟”
“بڑی آسان سی بات ہے۔ جب کوئی بھوت واقعی آپ کے قریب آئے، تو آپ کو خوفزدہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔”
“ٹھیک ہے، لیکن یہ خوف تو محض ایک ثانوی بات ہے۔ اصل خوف تو کسی بھوت کے ظاہر ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور یہ خوف تو اپنی جگہ موجود ہے۔ یہی خوف اس وقت میری ذات میں بے تحاشا موجود ہے۔” میں ذہنی بےچینی کی حالت میں اپنی سبھی جیبوں میں کچھ تلاش کرنے لگا۔
“مگر آپ کو چونکہ بھوت کے ظاہر ہونے سے پہلے تو کوئی خوف نہیں تھا، اس لیے آپ بڑے آرام سے اس سے سامنے آنے کی وجہ بھی پوچھ سکتے تھے۔”
“لگتا ہے آپ نے اپنی زندگی میں کسی بھوت سے کبھی بات نہیں کی۔ آپ بھوتوں سے کوئی واضح معلومات تو کبھی حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ وہ باتوں کو گھماتے پھراتے رہتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بھوت اپنے وجود کے بارے میں اس سے بھی کہیں زیادہ شبہات کا شکار ہوتے ہیں، جتنا شبہ ان کے ہونے ہر ہم انسان کرتے ہیں۔ یہ دیکھا جائے کہ وہ کتنے نرم و نازک ہوتے ہیں تو یہ بےیقینی کچھ اتنی عجیب بھی نہیں۔”
“میں نے تو یہ بھی سن رکھا ہے کہ بھوتوں کو پُھلایا بھی جا سکتا۔”
“بڑی معلومات ہیں آپ کو۔ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کون کرے گا؟”
“کیوں نہیں؟ اگر مثال کے طور پر وہ بھوت مادہ ہو تو،” اس نے کہا اور لہراتا ہوا اوپر سیڑھیوں کے آخر تک چلا گیا۔
“اچھا،” میں نے کہا، “لیکن تب بھی ایسا ہونا ضروری تو نہیں۔”
مجھے کچھ یاد آنے لگا تھا۔ میرا وہ شناسا سیڑھیوں پر اتنا اوپر تک جا چکا تھا کہ مجھے دیکھنے کے لیے اسے جھک کر نیچے کی طرف دیکھنا پڑ رہا تھا۔ “پھر بھی،” میں نے آواز دی، “وہاں اوپر اگر آپ نے میرا بھوت مجھ سے چھینا تو ہمارا تعلق ختم ہو جائے گا، ہمیشہ کے لیے۔”
“لیکن میں نے تو صرف مذاق کیا تھا،” اس نے کہا اور سیڑھیوں کی ریلنگ سے اپنا باہر نکلا ہوا سر پیچھے کر لیا۔
“پھر ٹھیک ہے،” میں نے کہا۔ اب میں پرسکون ہو کر سیر کے لیے جا سکتا تھا۔ لیکن چونکہ میں خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہا تھا، میں دوبارہ اوپر گیا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)

اپنا تبصرہ بھیجیں