فرانز کافکا کی تمثیل (24) ”نیا وکیل‘‘ – مقبول ملک

”نیا وکیل‘‘ – ‏Der neue Advokat

ہمارے ایک نئے وکیل ہیں، ڈاکٹر بُوسیفالس۔ ان کا ظاہر کچھ کچھ اس دور کی یاد دلاتا ہے،جب وہ مقدونیہ کے سکندر کا جنگی گھوڑا تھے۔ اگر آپ اس کہانی سے اچھی طرح واقف ہیں، تو آپ کچھ نہ کچھ تو جانتے ہی ہوں گے۔
میں نے حال ہی میں عدالت کی سیڑھیوں پر کھڑے ایک سادہ سے ہرکارے کو دیکھا جو اس وکیل کو ایسی پیشہ ورانہ لیکن تعریفی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، جیسے اس کی نظریں کسی ریس کورس میں چھوٹی شرطیں لگانے لیکن باقاعدگی سے آنے والے کسی مہمان پر ہوں۔ تب یہ وکیل اوپر عدالت کی طرف جاتے ہوئے سنگ مرمر کی بنی سیڑھیاں ایک ایک کر کے ایسے چڑھتا جا رہا تھا کہ اس کے قدموں کے نیچے پتھریلی سیڑھیاں بجنے سی لگی تھیں۔
عدالت کی بار نے بُوسیفالس کی رکنیت کی عمومی منظوری دے دی تھی۔ لوگ حیران کن حد تک سمجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے کہ آج کل کے سماجی نظام کو مدنظر رکھا جائے تو بُوسیفالس ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں اور اس بات کے پیش نظر بھی کہ تاریخ عالم میں وہ کتنی اہمیت کے حامل ہیں، ان کا حق بنتا ہے کہ ان کا دوستانہ خیرمقدم کیا جائے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج کل کوئی عظیم سکندر نہیں ہوتے۔ کئی لوگوں کو قتل کرنا تو آتا ہے اور ایسی صلاحیت کی بھی کوئی کمی نہیں کہ کسی ضیافت کی میز پر کسی دوست کو کافی دور سے ہی نیزے سے نشانہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے تو مقدونیہ اتنا چھوٹا اور تنگ سا علاقہ ہے کہ وہ سکندر کے باپ فیلپ کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ لیکن فوج کی قیادت کرتے ہوئے تو کوئی بھی، سرے سے کوئی بھی، ہندوستان نہیں جا سکتا۔
ہندوستان کے دروازوں تک پہنچنا تو اس دور میں بھی ممکن نہیں تھا۔ تب اسکندر کے سفر کے لیے سمت کا تعین بادشاہ نے اپنی تلوار کے اشارے سے کیا تھا۔
آج دروازے کہیں اور بھی زیادہ دور اور اونچی، قطعی مختلف جگہوں پر منتقل ہو چکے ہیں۔ آج کوئی سمت کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں تلواریں ہیں، لیکن صرف ہوا میں لہرانے کے لیے، اور وہ نگاہ جو ان کا پیچھا کرنا چاہتی ہے، الجھن کا شکار ہو جاتی ہے۔
اس لیے بہترین حل شاید یہی ہے کہ خود کو قانون کی کتابوں میں گم کر دیا جائے، جیسا بُوسیفالس نے کیا۔ اپنے دونوں طرف سوار کی ٹانگوں کا کوئی دباؤ محسوس کیے بغیر، ایک خاموش لیمپ کی روشنی میں بیٹھے، بالکل آزاد، سکندر کی جنگوں کی گھن گرج سے بہت دور، وہ ہماری بہت پرانی کتابیں پڑھتے اور ان کے ورق پلٹتے جاتے ہیں۔

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)