”ریڈ انڈین بننے کی خواہش‘‘ – Wunsch, Indianer zu werden
تو پھر بھی انسان اگر کوئی ریڈ انڈین ہوتا، یکدم تیار، اور ایک دوڑتے ہوئے گھوڑے پر سوار، سامنے سے آنے والی ہوا کے باعث تھوڑا سا جھکا ہوا، تھرتھراتی زمین پر بار بار تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے جھٹکے کھاتا ہوا، یہاں تک کہ انسان مہمیز بھی چھوڑ دیتا، اس لیے کہ مہمیزیں تو تھیں ہی نہیں، یہاں تک کہ انسان لگام بھی پھینک دیتا، اس لیے کہ لگامیں تو تھیں ہی نہیں، اور پھر جب وہ اپنے سامنے کٹی ہوئی ہموار گھاس والی چراگاہ کی زمین کو بمشکل دیکھ ہی پاتا، تو گھوڑے کی گردن اور سر ناپید ہو چکے ہوتے۔
مصنف: فرانز کافکا
(کافکا کی یہ تمثیل جرمن زبان میں محض چند سطروں لیکن صرف ایک ہی بہت طویل جملے پر مشتمل ہے، جو ان کی پہلی شائع ہونے والی کتاب میں شامل تھی۔ کافکا کی یہ اولین کتاب اسی تمثیل سے شروع ہوئی تھی اور تب ادبی نقادوں نے اسے اس دور کا ایسا بہت ہی مختصر نثری نمونہ قرار دیا تھا، جو فطرت کے بہت قریب رہنے والے ایک ریڈ انڈین کے طور پر ایک ’آزاد انسان‘ اور ’تنہا ہیرو‘ کی زندگی کی انتہائی کم الفاظ میں بڑی مفصل عکاسی کرتا ہے۔ اس تحریر میں کلیدی اہمیت کی بات وہ انسانی خواہش ہے، جو پوری نہیں ہوتی اور تمثیل کے عنوان کا فیصلہ کن پہلو بھی ریڈ انڈین ’ہونے‘ کی خواہش نہیں بلکہ ’بننے‘ کی ہے۔)
مترجم: مقبول ملک
(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)