”تاجر‘‘ – Der Kaufmann
یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو مجھ سے ہمدری ہو، لیکن مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ میرا چھوٹا سا کاروبار مجھے اس قدر پریشان کر دیتا ہے کہ میرے ماتھے کے اندر اور کنپٹیوں تک درد محسوس ہونے لگتا ہے، وہ بھی اس طرح کہ اطمینان کا کوئی امکان نظر ہی نہیں آتا کیونکہ میرا کاروبار بہت چھوٹا ہے۔
مجھے اپنا کام شروع کرنے سے پہلے گھنٹوں تیاری کرنا پڑتی ہے، ملازم کو ان غلطیوں کے خلاف خبردار کرتے ہوئے یاد دہانی کرانا پڑتی ہے، جن کے اس کی طرف سے ارتکاب کے مجھے خدشات رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے سال کے کسی بھی موسم میں اگلے موسم کے فیشن کا دھیان بھی رکھنا پڑتا ہے، اس طرح نہیں کہ میرے اپنے شناساؤں کے حلقے میں شامل افراد کس طرح کے فیشن کی پیروی کریں گے بلکہ اس طرح کہ دیہی علاقے کی وہ آبادیاں کس طرح کا فیشن پسند کریں گی جن تک بالعموم رسائی نہیں ہوتی۔
میرا سرمایہ دوسرے لوگوں کے پاس ہے، جن کی اصل صورت حال مجھ پر واضح ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسی کوئی بدقسمتی جس کا وہ شکار ہو سکتے ہوں، جب مجھے اس کا کوئی علم ہی نہیں تو میں اسے بھلا روک کیسے سکتا ہوں۔ شاید یہ لوگ رقمیں اڑانے پر اتر آئے ہیں اور کسی سرائے کے باغیچے میں پارٹیاں منا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو امریکا جانے سے پہلے ایسی کسی پارٹی میں شرکت کے لیے کچھ عرصے کے لیے رک گئے ہوں گے۔
اب کام کے کسی دن کی شام جب میں اپنی دکان بند کر رہا ہوں اور یکدم مجھے اپنے سامنے وہ کئی گھنٹے نظر آ رہے ہیں، جن میں اپنے کاروبار کے مسلسل تقاضے پورا کرنے کے لیے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، تو میرے اندر وہی جوش و جذبہ لوٹ آتا ہے، جسے میں نے آج صبح ہی اپنی ذات سے نکال کر کہیں بہت دور پھینک دیا تھا- یہ جوش و جذبہ ایک سیلاب کی طرح مجھ تک لوٹتا ہے لیکن میری ذات کے اندر کہیں رک جانے کے بجائے مجھے بغیر کسی منزل کے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔
لیکن میرے لیے یہ اچانک احساس بھی بھلا کس کام کا؟ میں اب صرف گھر ہی جا سکتا ہوں۔ میرا چہرہ اور ہاتھ گندے بھی ہیں اور ان پر پسینہ بھی ہے۔ میرے لباس پر دھبے بھی ہیں اور گرد بھی۔ میرے سر پر وہ ٹوپی اب بھی ہے، جو میں کام کے دوران پہنتا ہوں اور میرے لمبے بوٹوں پر کریٹوں میں لگی کیلوں کی وجہ سے خراشیں بھی آ چکی ہیں۔
میں گھر کی طرف جانا شروع کرتا ہوں، ایسے جیسے کوئی لہر مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جا رہی ہو۔ میں راستے میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں چٹخاتا جاتا ہوں اور اگر راستے میں مخالف سمت سے مجھے بچے آتے نظر آئیں، تو میں ان کے بالوں کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے سہلا بھی دیتا ہوں۔ لیکن راستہ مختصر ہے اور جلد ہی میں گھر پہنچ جاتا ہوں۔
میں لفٹ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو جاتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ میں اب وہاں اچانک اکیلا کھڑا ہوں۔ دوسرے جنہیں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا پڑتا ہے، کچھ تھک جاتے ہیں۔ انہیں جلدی جلدی سانس لیتے ہوئے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کوئی آئے اور فلیٹ کا دروازہ کھولے۔ اس دوران اگر وہ کچھ بے صبرے اور ناراض بھی ہو جائیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔
اس کے بعد جب وہ اپنے گھر کے پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے کھونٹی پر اپنا ہیٹ لٹکاتے ہیں اور پھر جب وہ راہداری سے ہوتے ہوئے شیشے کے چند دروازوں کے پاس سے گزر کر اپنے کمرے میں پہنچتے ہیں، تو تب کہیں جا کر وہ دوبارہ اکیلے ہوتے ہیں۔ میں تو لیکن لفٹ میں ہی اکیلا ہوتا ہوں اور اپنے گھٹنوں پر جھک کر لمبے سے شیشے میں خود کو دیکھ بھی لیتا ہوں۔
جب لفٹ اوپر کو جانا شروع ہوتی ہے، تو میں کہتا ہوں، “خاموش رہو، اور پیچھے ہٹ کر کھڑے رہو۔ کیا تم درختوں کے سائے میں پناہ لینا چاہتے ہو، کھڑکیوں کے پردوں کے پیچھے چھپنا چاہتے ہو یا پھر اپنے باغ میں پھیلی انگور کی بیلوں کے عقب میں روپوش ہو جانے کے خواہش مند ہو؟” میں یہ باتیں اپنے ایک دوسرے سے جڑے دانتوں کے پیچھے سے کر رہا ہوں اور لفٹ کے دودھیا شیشے کے پیچھے سے مختلف منزلوں کی سیڑھیاں ایسے گزر رہی ہیں، جیسے پانی نیچے گرتا جا رہا ہو۔
“اڑ جاؤ، اپنے ان پروں کے ساتھ جو میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ چلے جاؤ کسی گاؤں کی وادی میں یا پیرس، اگر وہی وہ جگہ ہے جہاں تم جانا چاہتے ہو۔ لیکن وہاں کھڑکیوں سے نظر آنے والے نظارے کا لطف تو لو، جہاں تین مختلف سڑکوں سے جلوس چلے آ رہے ہیں لیکن ایک دوسرے کو جگہ نہیں دیتے۔ پھر وہ آگے بڑھتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور ان کی آخری قطاروں میں کہیں کہیں کچھ جگہیں خالی رہ جاتی ہیں۔
“اپنے اپنے رومال ہلاؤ۔ ناپسندیدگی کا اظہار کرو۔ یا جذباتی ہو جاؤ۔ قریب سے گزرنے والی خوبصورت عورت کی تعریف کرو۔ قریبی ندی پر بنے لکڑی کے پل کو پار کر جاؤ۔ ندی میں نہاتے بچوں کو دیکھ کر تھوڑی سی سر کو جنبش دو اور دور کسی جنگی بحری جہاز پر سوار ہزار فوجیوں کےخوشی کے نعروں پر حیرانی کا اظہار بھی کرو۔ صرف اس غیر محسوس آدمی کا پیچھا کرو، جس کا اگر تم سے کسی دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے آمنا سامنا ہو جائے، تو اسے لوٹ لو۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے اسے دھیان سے دیکھو کہ کس طرح وہ انتہائی افسردگی سے بائیں طرف کی چھوٹی سی گلی میں مڑ کر اپنی راہ لیتا ہے۔
“اپنے گھوڑوں پر سوار جگہ جگہ بکھرے ہوئے پولیس اہلکار دوبارہ اکٹھے ہو کر تمہیں پیچھے ہٹنے ہر مجبور کر دیتے ہیں۔ انہیں ایسا کرنے دو۔ میں جانتا ہوں کہ گلیوں کو بالکل خالی پا کر وہ بہت ناخوش ہوں گے۔ کیا کہا تھا میں نے؟ وہ جوڑوں کی شکل میں گلیوں کے کونوں سے آہستہ آہستہ مڑتے ہوئے، اور کھلے چوراہوں میں گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے اب دور جا رہے ہیں۔”
اب مجھے لفٹ سے اترنا ہے۔ میں نے لفٹ کو دوبارہ نیچے پہلی منزل پر بھیج دیا۔ اپنےفلیٹ کے دروازے پر لٹکتی گھنٹی بجائی، ملازمہ نے دروازہ کھولا تو میں اسے سلام کرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔
مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک
(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)