”پیشہ ور گھڑ سواروں کے لیے غور کرنے کی بات‘‘ – Zum Nachdenken für Herrenreiter
اگر انسان غور کرے تو اس بات کی کوئی وجہ ہو نہیں سکتی کہ گھوڑوں کی کوئی دوڑ جیتنے کی خواہش کی جائے۔ ملک کا سب سے بہترین گھڑ سوار تسلیم کیے جانے سے جو شہرت ملتی ہے، اس بہت بھرپور خوشی کا آغاز تالیوں کی گونج سے ہوتا ہے، لیکن یہ خوشی اگلی صبح محسوس ہونے والے پچھتاوے کا راستہ بمشکل ہی روک پاتی ہے۔
ان مخالفین کا حسد بھی، جو بڑے چالاک اور کافی بااثر لوگ ہوتے ہیں، انسان کو اس وقت تکلیف دیتا ہے، جب وہ فتح کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار چھوٹے سے لیکن پرہجوم انکلوژر کے سامنے سے گزرتا ہے۔ پھر شائقین کا اسٹینڈ بھی دیکھتے ہی دیکھتے خالی ہو جاتا ہے اور چند ایسے سوار باقی بچتے ہیں جو جیتنے والے جوکی اور اس کے گھوڑے سے کچھ راؤنڈ پیچھے رہ چکے ہوتے ہیں۔ اپنے گھوڑوں پر سوار یہ جوکی ریس کورس کی گراؤنڈ پر دور افق کے قریب چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں۔
ہمارے بہت سے دوستوں کو اپنی شرطوں میں جیتی ہوئی رقوم کی وصولی کی جلدی ہوتی ہے۔ وہ کافی دور کیشیئر کی کھڑکیوں کے سامنے سے ہی کھڑے کھڑے خوشی سے چلاتے ہوئے ہمیں داد دینے لگتے ہیں۔ لیکن ہمارے بہترین دوستوں نے تو ہمارے گھوڑے پر کوئی شرط لگائی ہی نہیں ہوتی۔ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی شرط کی رقم ہار گئے تو انہیں ہم پر ہی ناراض ہونا پڑے گا۔ لیکن جب ہمارا گھوڑا پہلے نمبر پر آتا ہے اور انہوں نے کچھ بھی نہیں جیتا ہوتا، تو جب ہم جیتنے کے بعد اسٹیج کے قریب سے گزر رہے ہوتے ہیں، تو وہ رخ پلٹ کر اپنا منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں۔
اسی طرح ہار جانے والے حریف جوکی بھی اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار اس بدقسمتی سے آنکھیں چرانے کی کوشش کرتے ہیں، جو انہیں اپنا شکار بنا چکی ہوتی ہے۔ وہ اس ناانصافی کو بھی نظر انداز کر دینا چاہتے ہیں، جو کسی نہ کسی طرح ان کے ساتھ ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ ایسا تاثر لیے ہوئے ہوتے ہیں کہ جو ریس ابھی ابھی ختم ہوئی، وہ تو جیسے بچوں کا کھیل تھی اور اب لازمی طور پر ایک نیا اور بہت سنجیدہ مقابلہ شروع ہونا چاہیے۔
بہت سی معزز خواتین کو جیتنے والا سوار مضحکہ خیز نظر آتا ہے، کیونکہ وہ اپنی اہمیت کے احساس کی وجہ سے پھولا ہوا اور اس حقیقت کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ اسے ایک ایسے لامتناہی عمل سے گزرنا ہوتا ہے، جس دوران وہ لوگوں سے ہاتھ ملاتا جاتا ہے، انہیں سلام کرتا ہے، اظہار تشکر کے لیے جھکتا ہے اور دور کھڑے لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا ہلا کر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اس دوران مفتوح گھڑ سوار اپنے منہ بند کیے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے زیادہ تر ہنہناتے ہوئے گھوڑوں کی گردنوں پر ہلکی ہلکی تھپکیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ پھر آخرکار آسمان پر ہر طرف چھائے گہرے بادل پھٹ کر برسنا شروع کر دیتے ہیں۔
مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک
(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)