اداس رُتوں کا مسافر – ذیشان رشید

یار یہ جو اداسیاں ہیں ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں
ان میں ہوتی ہے ایک ذات اپنی
ان کی ہوتی ہے ایک بات اپنی
ان کے تیور کمال ہوتے ہیں
یہ کسی سے خفا نہیں ہوتیں
یہ کسی کو خفا نہیں کرتیں
ان کی عادت ہے بے ضرر کتنی
لوگ دنیا کے جو ستائے ہوں
وہ جو تنہائیوں کے مارے ہوں
ہاتھ یہ ان کا تھام لیتی ہیں
اور سب سے بڑا ہے وصف ان کا
یہ کبھی بے وفا نہیں ہوتیں
(زین شکیل)

یہ کلام خود کلامی کی سی شکل میں ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں گونجا تو دفعتاً خیال آیا کہ کبھی بے وفائی نہ کرنے والی یہ کیفیت کسی نہ کسی حد تک سب کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے البتہ کچھ لوگ اس کیفیت سے زندگی کے ایندھن کا کام لیتے ہیں۔
سفر بھی جاری رکھتے ہیں، فرائض کی ادائیگی میں بھی کوتاہی نہیں ہوتی، دھیان بھی نہیں بٹتا اور۔۔۔ اداسی کو بھی خود سے الگ نہیں ہونے دیتے۔

نماز روزہ بھی چھوٹ جاتا ہے
آپ ہم سے قضا نہیں ہوتے
(روبینہ بٹ)

محرومیاں اللہ کی عطا ہیں۔ اگر کوئی سمجھے تو۔۔۔
مئی کی آمد آمد ہے۔ یہ مہینہ میرے لیے خوشی غمی کی ملی جلی کیفیات لے کے آتا ہے۔
10 مئی کا دن سال کے کیلنڈر کا وہ دن ہے جب ابا جی اس دنیا سے اپنی ابدی منزل کی طرف کوچ کر گئے۔ ان کی زندگی کے آخری چند برس برین ٹیوممر جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے گزرے ۔ اس تکلیف نے جہاں مجھے ان کی بے پناہ قربت اور خدمت کا موقع عطا کیا وہیں میری شخصیت، میری روح، میری سوچ میں وہ دائمی خلا پیدا کیا، جو شائد اس دنیا کی زندگی میں کبھی پر نہ ہو سکے ۔
اسی مہینے کی 26 تاریخ اس دکھ کے مقابلے میں ایک دائمی خوشی میری زندگی میں لائی۔ میرے بڑے بیٹے کی پیدائش۔ گویا مئی میں میں والد کی شفقت سے محروم ہوا اور پدرانہ ذمہ داریوں کا بار میرے ناتواں کندھوں پر لاد دیا گیا۔
اپنے بچوں کے حوالے سے میری یہ خواہش تھی اور ہے کہ میں انھیں ویسا بننے میں مدد دوں جیسا وہ بننا چاہتے ہیں۔ میں انھیں اپنے جیسا بننے پر کبھی اصرار نہ کروں گا۔ میں نے اپنی زندگی اپنے انداز میں جی لی۔ اب ان کو ان کی زندگی ان کی خواہش کے مطابق جینے میں مدد دینا میرے نزدیک میرا فرض ہے۔ اچھے برے کی تمیز، البتہ اپنے تجربے کی روشنی میں ان کے سامنے عیاں کرنا کسی سے کہنے کی بات نہیں۔
مجھے پہاڑ کب لاحق ہوئے ، یہ کہانی یوں تو کئی بار سنا چکا ہوں لیکن اس کہانی کا ایک پہلو جس کا دبے دبے الفاظ میں اظہار کبھی کر دیا کبھی رک گیا یہ تھا کہ بچوں کو اس شوق کی طرف راغب کروں یا نہیں۔
بہت سے اثر انداز ہونے والے عوامل کا حتمی تجزیہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا، وما علینا الاالبلاغ کا مرحلہ میں طے کر لیتا ہوں، اگے تیرے بھاگ لچھیے۔
کہاں سے شروع کروں۔۔۔؟
پائپ لائن سے۔۔۔
پائپ لائن ٹریک 1930ء میں مری میں مقیم گورا صاحب کو پانی کی سپلائی کے لیے بچھایا گیا تھا۔ یہ ٹریک ڈونگہ گلی سے شروع ہو کر ایوبیہ تک جاتا ہے۔ اس کا کل فاصلہ 4 کلومیٹر ہے۔ نہایت آسان اور سیدھا سیدھا ٹریک ہے۔ اگر اس پر برف نہ ہو تو آسانی سے ایک طرف کا فاصلہ 40 منٹ میں طے کیا جا سکتا ہے۔
مجتبیٰ کی عمر اس وقت 9 برس اور یحیٰ کی عمر ساڑھے سات برس ہے۔ یحیٰ اپنی جسمانی صحت اور خوش خواراکی کی بنا پہ مجتبیٰ سے بڑا لگتا ہے۔ سخت جان بھی ہے اور مستقل مزاج بھی۔ مجتبیٰ میں نزاکت کچھ زیادہ ہے۔ ان کوائف کے ساتھ میں نے ارادہ کیا کہ آج دہلیز پار کی جائے سفر آغاز کیا جائے۔

اتوار 21 اپریل 2019ء کو صبح 8:30 بجے کے قریب ہم نے ٹریک کا آغاز کیا۔ موسم بے حد پرسکون تھا۔ ہلکی ہلکی دھوپ خنکی میں واضح کمی کا باعث بن رہی تھی۔ چاروں جانب ایستادہ پہاڑ پورے ڈسپلن کے ساتھ یوں کھڑے تھے گویا اپنا فرض نبھانے یہاں آئے ہوں۔ اپنی ڈیوٹی کرنے۔
صوفیاء کی بھی ڈیوٹی لگتی ہے۔ کسی کام، کسی معرکے کو انجام دینے کے لیے۔ پھر وہ خاموشی سے اس معرکے، اس کام میں جت جاتے ہیں۔ نہ کسی سے کوئی معاوضہ مانگتے ہیں، نہ کوئی تقاضا کرتے ہیں۔ بس چپ چاپ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ بدلے میں کبھی طنز، کبھی طعن تو کبھی تشنیع مقدر ٹھہرتی ہے۔
کوئی نہیں جان پاتا ان کے اندر کی دنیا کتنی گہری ہے۔ کیسے کیسے طوفانوں کو خود میں جذب کر رکھا ہے۔ بیرونی سطح بالکل پرسکون، خاموش و متانت بھری۔ یہی ادا صوفیاء کا حسن ہے۔ ان کی عظمت ہے۔ پہاڑ مجھے یہی سکھانے یہاں موجود تھے۔
ہم چاہیں تو اپنے جثے سے کیا کچھ نہ کر ڈالیں لیکن خاموشیاں اوڑھے کھڑے اپنا کام کرتے ہیں بس۔ نہ کسی سے الجھتے ہیں، نہ کسی کو دھمکاتے ہیں، نہ معیار سے گری زبان استعمال کرتے ہیں۔ پھر بھی ہمارا پہاڑ ہونا سب پہ عیاں ہے۔

انہی سوچوں میں گم تھا جب مجتبیٰ کی آواز آئی،
”بابا جی، یہ پہاڑ کتنا بڑا ہے؟‘‘
کافی بڑا ہے یار۔۔۔
”پھر بھی کتنا بڑا ہے؟‘‘
”کے ٹو جتنا؟‘‘
نہیں یار کے ٹو جتنا تو نہیں، اس سے کافی چھوٹا ہے۔
”اچھا بابا جی، دیکھنے میں تو کے ٹو جتنا لگ رہا ہے.‘‘
تم نے کے ٹو کہاں دیکھا؟
”ہماری کتاب میں ہے۔ اتنا ہی لگتا ہے۔‘‘
پہاڑوں کا قد کوئی کیسے ناپ سکتا ہے۔ پہاڑ ہونے کے لیے پہاڑ کا پہاڑ ہونا ہی کافی ہے۔
جیسے انسان ہونے کے لیے انسان کا انسان ہونا کافی ہے۔
یحییٰ بھی مکالمے میں شامل ہوا،
”بابا جی، میں اس برف والے پہاڑ پہ چڑھ جاؤں؟‘‘
چڑھ جاؤ۔۔۔
”بابا جی دیکھیں میں کے ٹو پہ چڑھ گیا‘‘
ارے واہ یار، تمھارا کے ٹو یہی لگ رہا ہے۔۔۔
کیا ہر شخص کا ‘کےٹو’ مختلف ہوتا ہے۔۔۔
اہلِ عقل اس جملے پہ برا مان جائیں گے۔۔۔
رہنے دیتے ہیں۔۔۔
پائپ لائن ٹریک پر دونوں بھائی میری توقع سے زیادہ اچھا چل رہے تھے۔ حوصلہ بڑھا دیا جائے تو حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔
سفر کا خوف، راستوں کا خوف، اونچائی کا خوف کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا اور دونوں بھائی تخلیے میں قدرت سے ملاقات کے لیے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔
راستہ منزل سے زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔ ہمراہی سفر کی منزلوں میں یادوں کے موتی پروتے چلے جا رہے تھے۔
دو گھنٹے کی وقفوں وقفوں سے مکمل ہونے والی مشقت کے بعد بالآخر ہم ٹریک کے آخری حصے پر واقع آبشار کے اس پل تک پہنچ گئے جس کے پار دیوار پر ان گورا فوجیوں کی یادگاری تختی کے طور پہ ان کے نام کندہ کر دیے گئے تھے جن فوجیوں نے یہ پائپ لائن مکمل کی تھی۔ وہاں پہنچ کر ہم نے بہت سی تصاویر بنائیں۔

شائد ان بچوں میں پہاڑ بازی کی شوق زور پکڑ جائے اور دس بیس تیس برس بعد جب میں نہیں رہوں گا تو فیس بک اپنے کچھ فیچر کی بدولت انھیں بتائے گی کہ انھوں نے اپنا پہلا پہاڑی سفر کہاں، کب، کس کے ساتھ کیا۔۔۔
اس بات کو سوچ کر میں نے خاموشی سے کچھ زاویے تصاویر کی شکل محفوظ کیے اور چشم تصور سے مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کی۔ ہلکی ہلکی موسیقی کانوں میں گونج رہی تھی۔
نیلم کے پانیوں کی دودھیا چاندنی، دیوسائی کے بڑے دریا کا چلم کی طرف اتا ہرا رنگ، اور اپر کچورا جھیل کنارے بیٹھ کے بتائے لمحے نگاہ شوق میں جلترنگ بجانے لگے۔
منٹھوکا کی بوندیں چہرے پر اترنے لگیں۔۔۔
نانگا پربت کی برفوں کو چھو کر آنے والی برفیلی ہوائیں فیری میڈوز کے سبزہ زار میں رقص کرنے لگیں۔
چلاس کی جھلستی دوپہر، بشام میں بہتے دریائے سندھ کی لہروں کا شور، استک کے زلزلہ زدہ برساتی نالے میں اترنے لگا۔
مجھ پر حال طاری ہو گیا۔
ایک اجنبی زبان بہت سے اجنبی کلمات دہرانے لگی۔
میں پہاڑوں میں اکیلا ہو گیا۔
کیا میں آئیندہ کسی اور کے ساتھ سفر کر پاؤں گا۔۔۔
نہیں۔۔۔
ہاں۔۔۔
نہیں۔۔۔
مجتبیٰ کا دایاں ہاتھ میرے کندھے پر آیا۔۔۔
“بابا جی، کیا سوچ رہے ہیں”؟
میں کیا جواب دیتا۔۔۔
چالیس سالہ زندگی کا کھٹا میٹھا اس ننھے سے ذہن میں کیسے منتقل کرتا۔۔۔
سو جواب آنے والے وقت پہ چھوڑ دیا۔۔۔
مجتبیٰ، یحییٰ کو جپھی ڈالی اور ٹریک سے واپس ہو لیا۔

(مسافر شوق)