”ایک دغاباز کی اصلیت کی بے نقابی‘‘ – Entlarvung eines Bauernfängers
میں رات دس بجے کے قریب بالآخر ایک آدمی کے ساتھ ایک ایسے معزز شخص کے گھر کے سامنے پہنچا جہاں مجھے ایک پارٹی کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ آدمی پہلے سے میرا بہت معمولی سی جان پہچان والا آدمی تھا، جو اس مرتبہ پھر غیر ارادی طور پر میرے ساتھ ہو لیا تھا اور جس کے ساتھ میں گزشتہ دو گھنٹے سے مختلف گلیوں میں گھومتا پھرتا رہا تھا۔
”تو پھر،‘‘ میں نے کہا اور اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارتے ہوئے اسے یہ بہت واضح اشارہ دینےکی کوشش کی کہ اب تو لازمی طور پر الوداع کہنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ اس سے رخصت لینے کی چند کم واضح لیکن ناکام کوششیں میں پہلے بھی کر چکا تھا۔ اب لیکن میں بہت تھک بھی چکا تھا۔ ”تو اب آپ اوپر جائیں گے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ میں اس کے بند منہ میں ایسی آوازیں سن سکتا تھا، جیسے اس کے دانت ایک دوسرے سے بج رہے ہوں۔
”ہاں۔‘‘ مجھے مدعو کیا گیا تھا، میں نے فوراً ہی اسے جواب دیا۔ لیکن مجھے مدعو کیا گیا تھا کہ میں اوپر پارٹی میں جاؤں، جہاں میں اب تک بڑے شوق سے جا بھی چکا ہوتا۔ مجھے دعوت اس بات کی تو نہیں دی گئی تھی کہ یہاں نیچے دورازے کے پاس کھڑا رہوں اور اپنے مدمقابل کھڑے انسان کے کانوں کے پار دیکھتا رہوں۔
مجھے دعوت اس بات کی بھی نہیں دی گئی تھی کہ اس آدمی کے ساتھ خاموش کھڑا رہوں، جیسے ہم نے تہیہ کر رکھا ہو کہ ہمیں اس جگہ پر طویل قیام کرنا تھا۔ اس دوران ہمارے ارد گرد کھڑے مکانات نے بھی ہماری اس خاموشی میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا، اور ان کے اوپر پھیلی اس تاریکی نے بھی جو ستاروں تک جا رہی تھی۔
پھر سیر کے لیے جانے لیکن نظر نہ آنے والوں کے قدم بھی تھے، جن کے بارے میں کسی کو بھلا کیا خواہش ہوتی کہ یہ اندازہ لگائے کہ وہ کدھر کو جا رہے تھے۔ تیز ہوا سڑک کے دوسری طرف سے بار بار تھپیڑے مارتی گزر رہی تھی۔ ایک گراموفون بھی تھا، جو کسی کمرے کی بند کھڑکیوں کے سامنے رکھا بج رہا تھا — اس خاموشی میں ان سب کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں، جیسے یہ سکوت ماضی سے لے کر مستقبل تک ہمیشہ کے لیے انہی کی ملکیت تھا اور رہے گا۔
وہ شخص جو میرے ساتھ تھا، وہ اپنی طرف سے، اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد میری طرف سے بھی، اس سارے منظر کا اس طرح حصہ بن گیا تھا کہ اس نے اپنا دایاں بازو اوپر کی طرف اٹھاتے ہوئے قریبی دیوار پر رکھا اور اپنا چہرہ اس بازو پر رکھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن یہ مسکراہٹ میں نے بالکل آخر تک نہیں دیکھی تھی۔ مجھے شرم آ گئی تھی اور میں نے یک دم اپنا رخ بدل لیا تھا۔
میں نے اسی مسکراہٹ سے یہ پہچانا تھا کہ وہ ایک دغاباز تھا۔ اپنے مفاد کے لیے سادہ لوح انسانوں کو باتوں میں لگا کر دھوکا دینے والا صرف ایک دغاباز، اور کچھ بھی نہیں۔ مجھے اس شہر میں کئی مہینے ہو گئے تھے اور مجھے یقین تھا کہ میں ایسے دغابازوں کو اچھی طرح پہچان سکتا تھا۔ کیسے وہ رات کے وقت تنگ سڑکوں سے اپنے بازو ہوا میں پھیلائے اور محتاط قدموں سے چلتے ہوئے باہر نکلتے تھے اور یوں ہمارے سامنے آ جاتے تھے جیسے وہ کسی سرائے کے مالک ہوں۔
میں یہ بھی جانتا تھا کہ کس طرح وہ ان ستونوں کے گرد چکر لگاتے تھے، جن پر اشتہارات چپکائے جاتے تھے اور جس طرح کے ایک ستون کے پاس ہم اس وقت کھڑے بھی ہوئے تھے۔ مجھے یہ اندازہ بھی تھا کہ کس طرح وہ ایسے بڑے بڑے گول ستونوں کے پیچھے چھپے آنکھ مچولی کھیلتے تھے اور صرف ایک آنکھ کھول کر ہماری جاسوسی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
میں اس بات سے بھی واقف تھا کہ ہمارے کسی ہچکچاہٹ یا خوف کا شکار ہونے کی صورت میں وہ کس طرح مختلف چوراہوں پر فٹ پاتھ کے کسی موڑ پر ہوا میں لہراتے ہوئے اچانک ہمارے سامنے آ جاتے تھے۔ میں انہیں بہت اچھی طرح سمجھتا تھا کیونکہ وہ مختلف چھوٹے چھوٹے مہمان خانوں میں مجھے ملنے والے میرے اولین شہری شناسا افراد بھی تھے۔
میری انتہائی سخت گیر رویے والی اولین نظروں کی وجہ بھی وہی تھے۔ وہ رویہ جو آج دنیا میں ہر جگہ پایا جاتا ہے اور جسے نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ اب میں نے اپنی ذات میں وہی سخت گیر سوچ محسوس کرنا شروع کر دی تھی، جو اس وقت پیدا ہوتی تھی جب انسان ان سے کافی دیر پہلے ہی بہت دور جا چکا ہوتا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ اب تو وہ ان کے چنگل سے بچ نکلا ہے، لیکن وہ تب بھی کہیں سے نکل کر اچانک اس کے سامنے آ کھڑے ہوتے تھے۔
ایسا کیوں تھا کہ وہ بیٹھتے ہی نہیں تھے، وہ گرتے بھی نہیں تھے، وہ بس دوسروں کو ایسی نظروں سے دیکھتے جاتے تھے، جو دور سے بھی بہت قائل کر دینے والی ہوتی تھیں۔ ان کا طریقہ کار ہمیشہ ایک ہی جیسا ہوتا۔ وہ یکدم ہمارے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے، اتنے چوڑے ہو کر جتنے وہ ہو سکتے تھے اور جہاں کہیں بھی ہم جانا چاہ رہے ہوتے، وہ ہمیں وہاں جانے سے روکنے کی کوشش کرتے۔
وہ اتنے باتونی ہوتے کہ ہمیں رہنے کے لیے ہمارے فلیٹ کے متبادل کے طور پر اپنا سینہ پیش کر دیتے اور جب ہمارے اندر غصے کے جذبات شدید تر ہو جاتے، تو وہ اسے گلے ملنے کی کوشش سمجھ کر ہمارے اوپر اس طرح گرنے لگتے کہ ان کے چہرے باقی ماندہ جسم سے کافی آگے ہوتے۔ پہلی بار مجھے اپنے ساتھ موجود اس آدمی کی موجودگی میں اس کا یہ کھیل پہچاننے میں کافی وقت لگ گیا تھا۔
میں نے اس شرمندگی سے نکلنے کے لیے اپنی انگلیوں کے سرے ایک دوسرے پر رگڑنا شروع کر دیے۔ وہ آدمی ابھی تک پہلے کی طرح آگے کی طرف جھکا ہوا تھا، وہ خود کو اب بھی ایک دغاباز سمجھ رہا تھا اور اسے اپنی قسمت پر جو اطمینان محسوس ہو رہا تھا، اس کی وجہ سے اس کا وہ گال سرخ ہو گیا تھا جو میں دیکھ سکتا تھا۔
”پہچان لیا ہے!‘‘ میں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے اس کے کندھے کو ہلکا سا ٹھونکا۔ پھر میں جلدی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا۔ وہاں ہال کے باہر کھڑے ملازموں کے چہروں پر بلاوجہ ہی بہت زیادہ وفاداری کے تاثر سے مجھے اتنی خوش ہوئی، جیسے کسی نے مجھے بڑے خوبصورت انداز میں حیران کر دیا ہو۔
پھر جب انہوں نے مجھ سے میرا اوورکوٹ لیا اور میرے لمبے بوٹوں پر لگی گرد صاف کی، تو میں ایک قطار میں کھڑے ان سب ملازمین کا ایک ایک کر کے اچھی طرح جائزہ لیتا رہا تھا۔ پھر سکون کا ایک لمبا سانس لیتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو اپنے پورے قد کے مطابق بالکل سیدھا کیا اور ہال میں داخل ہو گیا۔
مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک
(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)