اُردو کے صاحب طرز ناول نویس اور افسانہ نگار ڈاکٹر انور سجاد لاہور میں کئی ہفتوں کی علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔ وہ تمغہٴ حسن کارکردگی کے حامل بھی تھے۔
اُردو کے انتہائی معتبر ادیب، ڈرامہ نگار، نقاد، مصور اور افسانہ نگار ڈاکٹر انور سجاد چوراسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف امراض کا سامنا کر رہے تھے۔ پچھلے چند روز سے اُن کا کھانا پینا بھی انتہائی کم ہو کر رہ گیا تھا۔
مرحوم انور سجاد نے لاہور کے طبی تدریس کے مشہور ادارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ حکومت پاکستان نے انہیں 1989ء میں جمالیاتی فنون کے شعبے میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں تمغہٴ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔
انور سجاد کی مشہور کتابوں میں چوراہا، جنم کا روپ، خوشیوں کا باغ، نیلی نوٹ بک اور تلاش وجود شمار ہوتی ہیں۔ وہ ڈاکٹری کے ساتھ صدا کاری اور اداکاری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ ان کے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ڈرامے بھی سامعین اور ناظرین کی توجہ کا مرکز رہتے تھے۔ اس باعث انہیں ایک ہمہ جہت شخصیت قرار دیا جاتا تھا۔
وہ سعادت حسن منٹو سے خاص طور پر متاثر تھے لیکن اُن کی طرح کہانی نہیں بُنتے تھے۔ وہ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے حقوق کے ترجمان رہنے کے علاوہ ترقی پسندانہ نظریات سے بھی وابستہ رہے تھے۔ انہیں انتہائی صاحب مطالعہ شخصیت خیال کیا جاتا تھا۔ ان کا علمی قد اُن کی تحریروں سے واضح ہے۔
انور سجاد کو پاکستان کے جمالیاتی فنون کے افق کی انتہائی پرکشش شخصیت قرار دیا جاتا تھا۔ ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کامیابی سے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کی افسانہ نگاری کو مصنوعی حقیقت پسندی سے دور قرار دیا جاتا ہے۔
ان کی تحریریں بھی ان کے محسوسات کی وسعت کی عکاس اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔ چند ناقدین کے مطابق ڈاکٹر انور سجاد کی تحریروں کو ’ایبسٹریکٹ‘ قرار دے کر رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ شاعری کی دہلیز پر کھڑی نظر آتی ہیں اور اسی باعث ابہام کا باعث بھی بنتی ہیں۔
(عابد حسین، ڈوئچے ویلے، اُردو)