دہلی: بچوں کے مشہور رسالے ماہنامہ گُل بوٹے ممبئی کی جانب سے منعقد چار روزہ (23 تا 26 ستمبر 2019ء) عالمی سیمینار اپنی کمیت اور کیفیت ہر دو لحاظ سے غیر معمولی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ ماہنامہ گل بوٹے کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر جشن سیمیں کے تحت دہلی کی تین یونیورسٹیوں میں بچوں کا ادب سمت و رفتار کے عنوان سے منعقد اس عالمی سیمینار نے مسلسل چار دن تک اندرون و بیرون ملک سے کثیر تعداد میں تشریف لائے علماء، ادباء اور شعراء کی موجودگی میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔
گل بوٹے کی سلور جوبلی تقاریب کا افتتاحی اجلاس 23 ستمبر کی سہ پہر غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی میں منعقد ہوا۔ معروف صنعت کار اور اُردو نواز جناب حسن چوگلے (قطر) کی صدارت میں منعقد اس اجلاس میں حکومتی وزیر جناب عمران حسین، عام آدمی پارٹی کے ترجمان جناب دلیپ پانڈے، رکن اسمبلی حاجی اشراق خان، اُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین شہپر رسول، تلنگانہ اُردو اکادمی کے چیئرمین رحیم الدین انصاری، جناب علی ایم شمسی، پروفیسر عارف ایوبی (چیئرمین، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ)، غلام پیش امام ، انٹرنیشنل ہیئر اسٹائلشٹ حبیب احمد اور حافظ کرناٹکی بحیثیت مہمانان خصوصی اسٹیج پر موجود تھے۔ ملک و بیرون ملک سے آئے سیکڑوں بچوں کے ادیبوں کی موجودگی میں جودھپور یونیورسٹی کے صدر اور معروف دانشور پروفیسر اختر الواسع نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے اُردو زبان، بچوں کے ادب کی افادیت، ہماری تعلیمی صورت حال اور ملک کے حالات کے پیش نظر نہایت اہم نکات کی طرف شرکاء کو توجہ دلائی۔ آپ نے بچوں کے ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے فاروق سید کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تو باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتا ہے۔” انھوں نے کہا کہ فاروق سید دہلی والوں کے لیے تازیانہ بن کر آئے ہیں۔ دہلی والوں کو ادبِ اطفال کے تعلق سے جگانے آئے ہیں۔ عالمی کانفرنس کے سرپرست جناب حسن چوگلے نے گل بوٹے ٹیم اور فاروق سید کے مشن کو خوب سراہا اور ہر موقع پر ساتھ رہنے کا یقین دلایا۔ تمام مقررین نے مختلف علمی و ادبی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے گل بوٹے کی پچیسویں سالگرہ اور جشن سیمیں کے لیے فاروق سید کو مبارک باد دی۔ رسالے کی اشاعت کے پچیس برس مکمل ہونے پر بال بھارتی پونہ کے اُردو افسر خان نوید الحق کی رہنمائی میں ٹیم گل بوٹے نے اُردو میں بچوں کی کلاسک اور نایاب کتابوں کو از سر نو کو مرتب کرکے بچوں کے ادب کو انمول تحفہ پیش کرنے کا ایک قابل قدر کارنامہ انجام دیا۔ اسی کے ساتھ بچوں کے ادیبوں کی اولین ڈائریکٹری بھی اُردو والوں کی خدمت میں پیش کی. اجلاس کی نظامت کے فرائض معروف شاعر ڈاکٹر قاسم امام نے انجام دیے جب کہ سراج عظیم نے اظہار تشکر کیا۔ عاصم سید نے اپنے والد فاروق سید پر اظہارِ خیال کرکے تمام سامعین کو آب دیدہ کیا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد اِسی شام غالب اکیڈمی میں ایک خصوصی جلسہ ہوا جس میں خواتین قلم کاروں کی معروف تنظیم ’’بنات” کی جانب سے جشنِ سیمیں میں تشریف لائے ملک و بیرون ملک کے مندوبین کو استقبالیہ اور شاندار عشائیہ دیا گیا۔
24 ستمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں عالمی سیمینار کا پہلا دن تھا۔ صبح دس بجے صدر شعبہ اردو پروفیسر شہزاد انجم کی صدارت میں افتتاحی تقریب کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر قومی کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد عقیل شیخ، پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر وہاج الدین علوی، غلام حیدر، عبدالقاسم علی محمد (ماریشس)، علی ایم شمسی اور پروفیسر اختر صدیقی مہمانان کی حیثیت سے شریک رہے۔ کینیڈا سے تشریف لائے پروفیسر ادریس صدیقی نے نہایت جامع کلیدی خطبہ پیش کیا۔ آپ نے کہانی کے ہزاروں سالہ سفر کو بہت جامع اور دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ اس موقع پر مہمانوں کے ہاتھوں کولہا پور (مہاراشٹر) کے مشہور شاعر عرفان شاہ نوری کے شعری مجموعے ’’حاشیے میں نیکیاں” کی تقریب رونمائی انجام دی گئی۔ شاعر کا تعارف یاسین اعظمی (مالیگاؤں) نے پیش کیا جب کہ ڈاکٹر ناصر الدین انصار (امراوتی) نے کتاب پر تبصرہ پیش کیا. افتتاحی جلسے کی خوبصورت نظامت ڈاکٹر ندیم احمد نے کی۔
جامعہ میں منعقد سیمینار کا پہلا سیشن پروفیسر احمد محفوظ اور قاضی مشتاق احمد (پونہ) کی صدارت میں ’’بچوں کے ادب کی اہمیت، غرض و غایت” کے عنوان کے تحت منعقد ہوا۔ اس سیشن میں پٹنہ کے اسلم جاوداں صاحب نے افتتاحی کلمات پیش کیے. عذرا نقوی، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاوید حسن اور ڈاکٹر عبدالحئی نے مختلف عناوین پر مقالات پیش کیے اور نظامت ڈاکٹر شاہنواز فیاض نے کی جنھیں شرکاء نے خوب پسند کیا۔ سیمینار کا دوسرا سیشن ’’ادبِ اطفال کا بدلتا منظر نامہ” کے زیرِعنوان منعقد ہوا۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر کوثر مظہری اور فیروز بخت نے انجام دی۔ چھتیس گڑھ سے تشریف لائے بچوں کے معروف ادیب رونق جمال نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ ستار فیضی، ڈاکٹر ثاقب عمران، غزالہ فاطمہ، ڈاکٹر رضوان الحق نے مقالات پیش کیے اور نظامت ڈاکٹر سمیع احمد نے کی۔ جامعہ میں تیسرا سیشن معروف افسانہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید کی صدارت میں بعنوان ’’ادبِ اطفال میں امکانات” منعقد ہوا۔ اس سیشن میں محمد اسلم پرویز، ڈاکٹر نثار احمد، ڈاکٹر زاہد ندیم احسن اور ڈاکٹر عمران نے مقالات پیش کیے جن پر ڈاکٹر خالد جاوید نے بصیرت افروز صدارتی تقریر کی۔ اس سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد مقیم نے انجام دیے۔ سیمینار کے پہلے دن کی خاص بات یہ رہی کہ دن بھر کے مسلسل سیشن کے باوجود ہال کھچاکھچ بھرا رہا۔ پہلے دن کے کامیاب تینوں سیشن کے بعد صفدر ہاشمی ایمفی تھیٹر میں کلچرل پروگرام کے تحت داستان گوئی ’’داستان ایلیس کی” کا خصوصی پروگرام منعقد ہوا، جسے داستان گوئی کلیکٹیو نامی مشہور گروپ نے پیش کیا. بطور داستان گو عینی فاروقی اور نصرت انصاری نے سامعین کو اپنے سحر گرفتار کرلیا۔ شرکاء نے اس پیشکش کو خوب پسند کیا۔ افتتاحی کلمات ڈاکٹر مصطفیٰ پنجابی نے ادا کیے۔
گل بوٹے عالمی کانفرنس کے دوسرے دن کے لیے دہلی یونیورسٹی کا انتخاب کیا گیا تھا ۔ یونیورسٹی کے ہال میں صبح دس بجے افتتاحی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر ارتضٰی کریم نے کی۔ مہمان خصوصی کے طور پر اسٹیج پر ڈاکٹر امتیاز کریمی ( ڈائریکٹر، اُردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ) موجود تھے۔ عبدالقاسم علی محمد (ماریشس) عبدالکریم سالار جلگاؤں، ڈاکٹر شمیم صدیقی لکھنو، کمال مانڈلیکر ممبئی، ڈاکٹر اسد اللہ خان اور توصیف پرویز (پونے) نے بھی اظہار خیال کیا۔ بچوں کے مشہور ادیب جناب حافظ کرناٹکی نے کلیدی خطبہ میں گل بوٹے کی خدمات کو خوب سراہا۔ آپ نے بچوں کے ادب پر خصوصی توجہ دینے کی اپیل کی۔ امتیاز کریمی نے بچوں کے ادب کی ضرورت اور امکانات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ پروفیسر ارتضٰی کریم نے اپنی صدارتی تقریر میں بچوں کے ادب کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے فاروق سید کو اس تاریخی قدم کے لیے مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر متین طارق باغپتی کی کتاب ’’بہار چمن”، رونق جمال کی کتاب ’’ابا جان” اور متین اچلپوری کی کتاب ’’ماحول کی خوشبو” کی رسم اجرا منعقد کی گئی۔ بعد ازاں ان کتابوں پر حسنین عاقب، فرزانہ شاہد اور ظہیر قدسی نے تبصرے بھی پیش کیے. افتتاحی جلسے کی خوبصورت نظامت ڈاکٹر متھن کمار نے کی۔ عالمی سیمینار کا پہلا سیشن ’’بچوں کا کلاسیکی ادب اور عصرِ حاضر” کے عنوان سے شروع ہوا۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر اسلم جمشید پوری اور محمد خلیل نے فرمائی۔ اس سیشن میں ملک کے مختلف شہروں سے آئے بچوں کے ادیبوں نے اپنے مقالات پیش کیے۔ جن میں ڈاکٹر مشتاق عالم قادری، ڈاکٹر ارشاد نیازی، مشتاق کریمی، ایم مبین شامل ہیں۔ ان مقالات پر صدور نے تبصرے کیے۔ افتتاحی کلمات مرزا عبدالقیوم ندوی نے ادا کیے۔ نظامت ڈاکٹر ابوبکر عباد نے فرمائی۔
دوسرا سیشن ’’ادبِ اطفال میں تراجم” کے زیرِ عنوان منعقد ہوا۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر نعمان خان اور متین اچلپوری نے فرمائی۔ مالیگاؤں سے تشریف لائے خیال انصاری نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ نظامت کے فرائض مشیر انصاری نے انجام دیے. اس سیشن میں امیر حمزہ، پروفیسر صادقہ نواب سحر، ڈاکٹر عاکف سنبھلی اور رودر شکتی جی مہاراج نے پیش کیے۔
تیسرا اور آخری سیشن ’’ادبِ اطفال، ایک وسیع دنیا” کے زیرِعنوان شروع ہوا۔ صدارت ڈاکٹر ذکی طارق اور سیدہ نوشاد بیگم نے فرمائی، اچلپور سے تشریف لائے بابو آر کے نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ ملک کے مختلف مقامات سے تشریف لائے اسکالرز نے اپنے موضوعات کو خوبصورتی سے پیش کیا. جن میں شبینہ فرشوری حیدرآباد، نوار الاسلام، ڈاکٹر ساجد حسین اور دنیش کمار شامل ہیں۔ نظامت کے فرائض سید محمد اکرم حسین نے انجام دیے۔ دن بھر کے تین کامیاب سیشن کے بعد شام سات بجے بچوں کے شاعروں کا مشاعرہ منعقد ہوا۔ افتتاحی کلمات اسلم فرشوری (حیدرآباد) نے ادا کیے۔ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر، شجاع الدین شاہد، ستار فیضی،حبیب سیفی، ڈاکٹر عائشہ شیخ، عبداللہ بھٹکلی، نسرین شیخ، آصف اقبال وغیرہ نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا اور مشاعرے میں شرکاء نے شاعروں کو داد و تحسین سے خوب نوازا۔ نظامت محسن ساحل نے کی۔
گل بوٹے عالمی سیمینار کے آخری دن کی تقریبات جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں منعقد ہوئیں۔ صبح گیارہ بجے کانفرنس کا افتتاحی اجلاس جے این یو کے خوبصورت ہال کنونشن سینٹر میں منعقد ہوا۔ جلسے کی صدارت پروفیسر انور پاشا نے فرمائی۔ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ڈین پروفیسر عین الحسن موجود تھے۔ مشرف عالم ذوقی، پروفیسر خواجہ اکرام، پروفیسر غضنفر، ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر، مہاراشٹر اُردو اکادمی کے صدر ڈاکٹر احمد رانا، ڈاکٹر شعیب ر ضا خان، عادل فہیم (دوبئی) اور سلطان مالدار ممبئی نے اظہار خیال کیا۔ افتتاحی کلمات خان نوید الحق نے پیش کیے۔ پر مغزکلیدی خطبہ ایڈووکیٹ خلیل الرحمٰن نے پیش کیا۔ تمام مقررین نے بچوں کے ادب پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے گل بوٹے کے مدیر فاروق سید کی مساعی جمیلہ کی تحسین و آفرین کی۔ ڈاکٹر شفیع ایوب نے خوبصورت انداز میں نظامت کے فرائض انجام دیے۔
اس دن سیمینار مختلف عناوین جن میں ’’ادبِ اطفال کی مختلف اصناف”، ’’بچوں کا ادب: وسائل اور مسائل”، اور ’’ادبِ اطفال کی دنیا” پر منعقد ہوئے۔ مختلف سیشن کی صدارت پروفیسر محمد شاہد حسین، پروفیسر خواجہ اکرام، پروفیسر فاروق انصاری، ڈاکٹر محمد توحید خان اور ڈاکٹر نثار احمد نے فرمائی۔ اس موقع پر مختلف مقامات سے تشریف لائے اسکالرز ڈاکٹر عبدالرزاق زیادی، امتیاز رومی، عائشہ ضیاء، اشتیاق احمد، عبداللہ غازی بھٹکلی، ڈاکٹر محمد عمران، شاہد جمال اور ڈاکٹر پرویز شہریار نے اپنے اپنے موضوعات پر مقالات پیش کرکے داد و تحسین حاصل کی۔
محمد رکن الدین، ڈاکٹر محمد ثناء اللہ اور جاوید عالم نے الگ الگ سیشن کی نظامت فرمائی ۔ دن بھر چلنے والے اس سیمینار میں شرکاء کی کثیر تعداد موجود تھی۔
عالمی کانفرنس کا اختتامی سیشن اُردو اکادمی دہلی میں منعقد ہوا جہاں اردو اکادمی کی طرف سے ٹیم گل بوٹے اور عالمی سیمینار میں شریک تمام مندوبین کو استقبالیہ دیا گیا ۔ پروگرام کی صدارت وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے فرمائی جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ جناب منیش سسودیا، عام آدمی پارٹی کے ترجمان اور بچوں کے ادیب جناب دلیپ پانڈے، اردو اکادمی کے سکریٹری ایس ایم علی، گل بوٹے کے مدیر فاروق سید، خان نوید الحق اور آصف اعظمی موجود تھے ۔ اس موقع پر نائب وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں گل بوٹے کی پچیس کتابوں اور بچوں کے ادیبوں کی اولین ڈائریکٹری کے اجرا کی تقریب منائی گئی نیز ان کے ہاتھوں کتابوں کے مرتبین، ٹیم گل بوٹے اور ملک کے معروف ادیبوں کا استقبال کیا گیا۔ اس تقریب میں جناب منیش سسودیا نے نہایت بصیرت افروز تقریر کرتے ہوئے بچوں کے ادیبوں سے وابستہ توقعات کا برملا اظہار کیا۔ پروفیسر شہپر رسول، دلیپ پانڈے اور آصف اعظمی نے بھی نہایت اہم نکات پر تقریریں کیں۔ فاروق سید نے اپنے پچیس سالہ سفر کی مختصر روداد پیش کرتے ہوئے ٹیم گل بوٹے اور بچوں کے ادیبوں کے استقبال پر حکومت اور اُردو اکادمی کا شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض آصف اقبال نے انجام دیے۔ اس طرح اس شاندار الوداعی تقریب اور پر تکلف استقبالیے کے ساتھ ہی گل بوٹے کی جانب سے ’’بچوں کا ادب، سمت اور رفتار” کے عنوان سے منعقد یہ شاندار عالمی کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔ تین نامور یونیورسٹیوں میں منعقد اس عالمی سیمینار کے باعث دل والوں کے شہر دہلی میں مسلسل چار دن تک گہماگہمی اور ادبی چہل پہل رہی، ہر طرف بچوں کے ادب کے چرچے اور ادبی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ شہر و اطراف کے اسکالرز، تینوں یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات، زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے احباب اور اُردو کے شائقین ان تقریبات میں ہمہ وقت شریک رہ کر مستفیض ہوتے رہے۔
رپورٹ: ڈاکٹر ناصر الدین انصار
بشکریہ: محبوب الہٰی مخمور