زبانِ یارِ من دانش – احمد اقبال

میں نے ایک پاکستانی خاتون کی ڈینش ادب میں خواتین کے کردار پر تحقیقی کاوش اور ناقدانہ تحریر دیکھی تومیں واقعی دم بخود رہ گیا۔
”زبانِ یارِ من دانش‘‘ ایک دیوانگی آمیز لیکن پرعزم جذبہ شوق کی تحیر انگیز مثال ہے اور شاید واحد مثال ہے۔ کسی غیر ملکی زبان کے ادب تک اب تک ہماری رسائی کے افق انتہائی محدود رہے ہیں۔
انگریزی اور اس سے پہلے ترکی فارسی تو حملہ آوروں اور حاکموں کی زبان تھی جس سے تعلق نے اُردو کو جنم دیا تھا لیکن عصرِحاضر تک ہمارا ادبی سفر فرانس امریکہ یا روس اسپین اور اٹلی سے ہٹ کے نجیب محفوظ اور نیپالی جیسے ادیبوں کی نوبل انعام یافتہ تخلیقات تک محدود رہا۔ وہ بھی عموماً انگریزی ترجوں کی وساطت سے۔
اسکینڈی نیوین ممالک تو شاید ہماری ذہنی و جسمانی قوت پرواز سے پرے تھے لیکن ہم نے مشرق پر بھی نگاہ نہ کی جس میں جاپان اور کوریا جیسے ترقی یافتہ مملک بھی آتے ہیں، جن سے ہمارے تجارتی مراسم استوار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کہاں کیا لکھا جارہا ہے وہ بھی نہیں بتاتے جو وہاں قیام پذیر ہیں جیسے کہ سویڈن میں پاکستانی لاکھوں نہ سہی ہزاروں کی تعداد میں آباد ہیں۔
ایورسٹ کی فتح جیسا یہ منفرد کارنامہ صدف مرزا نے ہی انجام دیا کہ ڈینش پڑھی، پڑھائی۔ پھر ادب کے سمندر میں تحقیقی غواصی کی اور اس میں سے خواتین کی کاوش کو خصوصی توجہ کا موضوع بنا کے ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا۔
اس کے لیے ان کا پیرایۂ اظہار جو اُردو نظر آئی وہ بیک وقت اتنی مربوط اور مضبوط تھی کہ اس نے میرے احساس کو مکمل گرفت میں رکھا اور شاید خود صدف مرزا کو طمانیت دی ہوگی کہ جو بھی کہنا تھا کہہ دیا۔
نہیں معلوم کہ اس موزوں ترین نام والی کتاب کومیں کبھی پڑھوں گا یا نہیں۔ ڈینش ادب کو پڑھنے کا امکان تو حسب سابق صفر ہے لیکن میری استدعا ہوگی کہ صدف کسی ایک شہکار ناول کو اُردو کا قالب ضرور دیں۔ ناممکن کا لفظ تو ان کی لغت میں ہے نہیں.