رانا ریزورٹ اینڈ سفاری پارک کے نام سے واقفیت تو کچھ سالوں سے تھی اور کچھ اڑتی خبریں و ادھر ادھر بکھری تصاویر دیکھی تھیں لیکن ذہن میں واضح تصویر کوئی نہیں بن رہی تھی کہ یہ جگہ کیا ہوگی۔ بس اتنا اندازہ تھا کہ کچھ کچھ پسند آنے والی جگہوں جیسی ہی ہوگی تو با وجود کوشش کے کبھی وزٹ کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ زیادہ سے زیادہ تعریف یہ کی جاتی کہ یہ چھانگا مانگا جنگل جیسی ہی کوئی تفریحی جگہ ہے۔ شومئی قسمت کہ ایک سکول کی طرف سے خصوصی بلاوے پر وہاں جانے کا موقع مل ہی گیا۔ جانے سے دو دن پہلے ایسے ہی خیال آیا کہ فیس بک پر اس کا پیج دیکھا جائے۔ اس پر بھی بس روایتی سا اک اندازہ ہی مل سکا۔ تو پھر بس قیاس کے گھوڑوں کو لگام ڈالی اور سب کچھ آنے والے وقت پر ڈالا کہ دیکھتے ہیں اب اس کشکول میں کون سا سکہ میرے لیے کھنکے گا، اور وہ کھوٹا ہوگا کہ کھرا، چلو چل کر ہی دیکھتے ہیں۔ بس کا سفر جو کچھ اونگھتے، کچھ مطالعہ کرتے اور کچھ باہر کے تیزی سے گزرتے نظاروں میں بیتا۔ ساتھ ساتھ بالکل اجنبی رستے بارے گوگل میپ کھنگال کر خود کو تسلی دیتے کہ بس پہنچنا ہی چاہتے ہیں۔ بس اپنی طاقت کے مطابق جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ بھائی پھیرو پر جا کر یہ بھی بائیں طرف پھِر گئی۔ سفر ساہیوال سے شروع ہوا تو یہ ”بائیں پھر‘‘ کا کاشن ہی ہوسکتا تھا۔ لاہور کی طرف سے سفر کرتے یقینا ”دائیں پھر‘‘ ہوتا ہے۔ پہلے تو واہ نکلی کہ کیا خوب کارپٹڈ سڑک ہے لیکن یہ واہ جلد ہی کھڈے واہ ہوگئی جیسے ہی اک اور بائیں پھر ہوا اور رستے کے سنگ میل پنڈ بلوکی سے آگے ہیڈ بلوکی کا پتہ دینے لگے۔ پنجاب کے روایتی کھیت کھلیانوں کے مناظر اور پھر دریائے راوی کا علاقہ جو ہلکے کاسنی، گلابی پھولوں سے لیس سرکنڈوں کے جھنڈ کے جھنڈ سے بھرا پڑا تھا۔ اک طرف دریا کا پشتہ سڑک کے ساتھ ساتھ تو دوسری طرف کہیں آبادی و ویرانی اور کھیت کھلیانی۔ بس اب ہیڈ بلوکی پہنچنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک دائیں طرف مڑی اور پھر دریا کے پانی کی مخصوص مہک آئی۔ دو نہروں، پتوکی نہر اور نہر لوئر باری دوآب کے عین دریا سے نکلنے کے ساتھ ہی پل پر سے بس جب گزری تو خطرناک حد تک محسوس ہوا کہ ہم اس پر معلق ہیں اور ذرا جو جھٹکا لگا تو سیدھے پانی میں۔ یہی حال دریا پر بنے ہیڈ پل سے گزرتے محسوس ہوا اور وہ نظارہ دہشت انگیز تھا۔ لیکن بس سے عین اپنی کھڑکی سے نیچے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ پانی کی شفافیت اور دریا کے پل کے ساتھ تہہ صاف سامنے تھی اور وہیں پر پرندوں کے غول کے غول پانی میں بکھرے پتھروں پر براجمان تھے۔ ان میں کوئی ایک اٹھتا، پانی میں ڈبکی لگاتا اور تا دیر اس میں رہتا کہ گم ہو جانے کا خیال آنے لگتا اور پھر وہ چونچ میں اپنی خوراک لیے نمودار ہوتا۔ ایسے ہی آگے بڑھتے رہے. دریا کے پل کے آخری پارٹ پر پانی کا شور اور بہاؤ بہت ہی تیز تھا اور وہیں مچھلیوں کا جمپینگ نظارا ہمارا منتظر تھا۔ لیکن اس پل کے دوسری سمت جہاں پانی بیراج کی رکاوٹ پر تھا، وہاں انسانی بدصورتیوں کا نظارہ اک کراہت آمیز گند کی شکل میں جمع ہو رہا تھا۔ یہ منظر واپسی پر نظر میں آیا تھا۔ دریا کے مغربی جانب کنارے کنارے لوگ کیمپینگ و مچھلی پکڑنے کی سرگرمی میں مصروف نظر آئے۔ یہ منظراک اور کسک کو دل میں جگا رہا تھا لیکن ابھی اس خواب سکے کی کھنک مستقبل کے کشکول میں ہی کہیں گم تھی۔ ہم دریا پار ہوئے تو پارکنگ سے آگے کیسی دنیا ہے، اس کو دریافت کرنے چل پڑے۔ جیسے ہی ریزورٹ میں داخل ہوئے تو پنجاب کے روایتی ڈھول کی استقبالیہ تھاپ نے محسوس کرایا کہ شاید یہ کسی خصوصی مہمان کے لیے ہے جو شاید ہم نہ ہوں لیکن ایسا نہیں تھا، یہ ہر آنے والے گروپ کے لیے تھی۔
داخل ہوتے ہی اک حیرت کا سامنا تھا کہ وہاں دو رویہ قد آدم آئینےنسب ہیں جو یک دم آپ کو حیران کرتے ہیں اور پھر آپ مسکراتے ہیں، اپنا سراپا دیکھتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آگے بائیں طرف اک اونچے چبوترے پر اس ریزورٹ کے شاید بانی رانا شوکت محمود کی قبر ہے جو پہلے عجیب سی لگی۔ چلتے چلتے دعائے مغفرت کی۔ واپسی پر ہاں اک دعا دل سے نکلی تھی، شکریہ کے ساتھ. یہ ریزورٹ اک مکمل فیملی پکنک کے لیے بہترین جگہ ہے، یہ روایتی فقرہ لگتا تھا لیکن جب آپ وہاں پر وقت گزارتے ہیں، بطور اک خاتون، آپ کو کسی قسم کی اُلجھن نہیں ہوتی. اس کا سبب وہاں کی انتظامیہ ہے۔
جگہ جگہ خواتین کی عزت و احترام بارے تنبیہی پیغامات درج ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہ کسی قسم کی ہیراسمنٹ کی اجازت نہیں، بصورت دیگر وہیں پر سزا دی جائے گی۔ علاوی ازیں دیگر بہت سارے خوش گوار پیغامات آپ کو پڑھتے ہوئے بھلے لگتے ہیں۔ صفائی بارے نا صرف جگہ جگہ پیغامات آویزاں ہیں بلکہ اس کا خاطر خواہ انتظام بھی ہے. کہیں آپ کو گند پڑا نظر نہیں آئے گا۔ سیمنٹڈ ڈسٹ بن جگہ جگہ حتیٰ کے گھنے جنگل میں بھی رستوں کنارے ملیں گی۔ یہاں لوگوں کی ہر قسم کی تفریح کا انتظام ہے. خصوصی طور پر یہ ریزورٹ خواتین و بچوں کو سامنے رکھ کر بنایا گیا لگتا ہے۔ بے پناہ رش ہونے کے باوجود آپ پوری بے فکری سے گھومتے ہیں۔ دوران وزٹ آپ کو طلبہ کے درمیان ہلکی پھلکی ہوٹنگ تو محسوس ہوتی ہے لیکن وہ ہیراسمنٹ یا ناگواری کا عنصر نہیں ملتا۔ ہر قسم کے لوگ آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں۔ کئی جوڑے بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھنے کا ملے۔ صاف ستھرے واش رومز جہاں کسی قسم کی ناگوار بو سے واسطہ نہیں پڑا جو عموماََ ایسی پبلک جگہوں پر نا پید ہیں۔ لائیو میوزک کنسرٹ بھی ہوتا رہتا ہے بیل گاڑی، گدھا گاڑی، تانگے، اونٹ گاڑی اور اونٹ کی سواری جیسی مزے دار سرگرمیاں۔ ان پر اپنا اپنا میوزک سسٹم جو بعض اوقات بے ہنگم شور لگتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جنگل کے اندر تک جانے والی ٹرام جس پر بیٹھ کر آپ ہرنوں کو ان کی قدرتی آزادی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں، جنگل کے وہ حصے بہت ہی پرسکون ہیں۔ آپ اک لمبی واک جنگل میں کر سکتے ہیں۔ علاقہ میں حفاظت کا بھی بھر پور انتظام ہے۔ کشتی رانی کی سہولت بھی موجود ہے اور بچوں کے لیے، ان کی دلچسپی کے مطابق ہر قسم کے جھولے بھی جیسے گھڑ سواری، زپ لائن، بونجی جمپ وغیرہ وغیرہ۔ کھانے پینے کی بھی چھوٹی چھوٹی دکانیں دکھائی دیں اور کچھ بچوں و خواتین کی دلچسپی کی چیزوں کی فروخت کے سٹال بھی۔ ایک ریستوران بھی ہے جو بوجوہ رش کے میں وزٹ نہیں کر سکی۔ یہاں کی انٹری فیس 250 روپے فی کس ہے. باقی کچھ فیملی و سکول کالج سٹوڈنٹ بپیکیجز بھی ہیں. ہفتہ اور اتوار کے ایام سکول کالج و فیملی کے لیے مختص ہیں۔ اگرچہ یہ شاید اتنا حیران کن نہ ہو لیکن عام پاکستانیوں کے لیے یہ جگہ مکمل فیملی پکنک ایڈوینچر پیکج ہے۔ رہائش کا بہترین انتظام بھی موجود ہے۔ قیاس یے کیمپینگ کی بھی سہولت ہوگی. یہاں نائٹ ایڈوینچر بھی ہوسکتا یے۔ حال ہی میں ونڈرز آف دا ورلڈ کے ماڈلز کو شامل کرنے سے آپ چند قدم میں دنیا گھوم لیتے ہیں اور کہہ سکتے جانو آئی ایم آن ورلڈ ٹور۔
تریوی فاؤنٹین کی سہولت بھی میسر ہے، اگرچہ کسی نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا اور ہمیں کوئی سکہ نظر بھی نہ آیا۔ کافی پارکس و تفریحی جگہیں دیکھیں لیکن یہ جگہ سب میں منفرد لگی تو اس کو بیان کرنے کو تحریر کا سہارا لیا۔
آخر میں میری تجویز ہے کہ پنجاب کے قرب جوار کے لوگ جو ایک فیملی پکنک و ایڈوینچر کا شوق و دلچسپی رکھتے ہیں، ضرور یہ جگہ وزٹ کریں۔ خصوصی طور پر خواتین و بچوں کو ضرور لے کر جائیں۔