سِکھ دھرم کے بانی بابا گرو نانک 15 اپریل (بعض روایات کے مطابق 29 نومبر) 1469ء کو رائے بھوئے کی تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب) میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بابا گرو نانک کے والد مہتا کلو ایک پٹواری تھے اور ماتا ترپتا ایک سادہ مزاج عورت تھیں۔
بابا گرو نانک کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا۔ وہ بچپن ہی سے روحانی قوتوں کے زیر اثر ہونے کے باعث غیر معمولی واقعات کو وجود میں لانے کا سبب تھے۔ سِکھ لوک روایات کے مطابق درخت ان پہ سایہ فگن ہوتے تھے اور ان کو سوتے میں بھی دھوپ سے سایہ فراہم کرتے تھے۔ موذی جانور بھی ان کے لیے بے ضرر ثابت ہوتے تھے۔
گرو نانک نے پندرھویں صدی عیسوی میں سِکھ مذہب (جو کہ بلحاظ تعداددنیا کا پانچواں سب سے بڑا مذہب ہے) کی بنیاد رکھی۔
گرو نانک کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور وہ کسی واسطے یا وسیلے کے بغیر براہ راست خالق کائنات سے اپنا تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ گرو نانک کی تعلیمات کا بیانیہ ان کی 974 نظموں کی شکل میں موجود ہے جو کہ ان کی مذہبی کتاب ”گرو گرنتھ صاحب‘‘ میں محفوظ ہیں۔
سِکھ مذہب میں نبی یا پیغمبر کے تصور کی بجائے ”گرو‘‘ کا تصور ہے جو کہ ایک ہدایت یافتہ ہستی ہے۔
سِکھ دھرم میں دس گرووں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان دس گرووں کے ساتھ ساتھ ”گرنتھ صاحب‘‘ کو بھی گرو مانا جاتا ہے جو کہ بابا گورونانک کی تعلیمات پہ مبنی تحریر ہے۔ سِکھ روایات کے مطابق سِکھوں کے دسویں گرو گرو گوبند سکھ جی نے سلسلہ گرو ہمیشہ کے لیے گرنتھ صاحب کو منتقل کر دی تھا۔
سکھ دھرم کی ابتدا کے بارے میں روایت یہ ہے کہ 1499ء میں جب کہ بابا نانک کی عمر 30 برس تھی، بابا جی ایک دن مقامی چشمے کالی بین میں نہانے کے لیے اترے لیکن نہانے کے بعد واپس سطح آب پہ نمودار نہ ہو سکے۔ قصبے کے لوگوں نے خیال کیا کہ وہ ڈوب گئے ہیں۔ انھیں کافی ڈھونڈا گیا لیکن ان کا کوئی نشان نہ ملا۔ اس واقعے کے تین دن بعد بابا جی دوبارہ نمودار ہو گئے لیکن اب کی بار وہ بالکل خاموش تھے۔ جس دن وہ بولے، انھوں نے اعلان کیا:
”نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان بلکہ سب صرف انسان ہیں۔ تو مجھے کس کے راستے پر چلنا چاہیے؟ مجھے خدا کے راستے پر چلنا چاہیے۔ خدا نہ ہندو ہے نہ مسلمان۔ اور میں جس راستے پہ ہوں وہ خدا کا راستہ ہے۔‘‘
اس اعلان کے آخری حصے میں انھوں نے جو کلمات کہے وہ اس امر کا اعلان تھے جیسے انھیں کوئی خدائی عہدہ عطا ہو گیا ہو اور وہ کسی بڑے روحانی منصب پہ فائز کری دیے گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد نانک کو گرو کہا جانے لگا اور سکھ مت کی ابتدا ہوئی۔
گرونانک 22 ستمبر 1539ء کو کرتار پور میں 70 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے وقت ہندو، مسلمان اور سکھ سب کے سب ان کی آخری رسومات اپنے اپنے عقائد کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ بحث نے طول پکڑی تو چادر کے نیچے سے ان کی میت غائب ہو گئی اور وہاں میت کی جگہ پھول تھے۔
شکر گڑھ، ضلع نارووال کی تحصیل ہے جو دریائے راوی کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ 1947ء سے پہلے اس تمام اراضی کا مالک ایک سکھ ”نارو سنگھ باجوہ‘‘ ہواکرتا تھا، جس کے نام پہ شہر نارووال کی بنیاد پڑی۔ نارووال 1991ء تک ضلع سیالکوٹ کا حصہ تھا۔ 1 جولائی 1991ء کو نارووال کو ایک الگ ضلع بنا دیا گیا اور شکر گڑھ اس کی تحصیل قرار پایا۔
شکر گڑھ تقسیم ہند سے پہلے ضلع گورداس پور کا حصہ تھا۔ مغل حکمران شکر گڑھ سے ہوتے ہوئے گرداسپور کے راستے دہلی جاتے تھے۔ یہی راستہ کشمیر جانے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔
اسی تحصیل شکر گڑھ کا ایک چھوٹا سا گاؤں کرتار پور ہے جہاں دربار صاحب کرتار پور ہے۔ اس گردوارے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سِکھ دھرم کے بانی بابا جی گورونانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں گزارے اور یہیں 22 ستمبر 1539ء کو ان کا انتقال ہوا۔
گوجرانوالہ سے 121 کلومیٹر کی مسافت پہ نارووال سے شکر گڑھ جانے والی سڑک پہ کوئی پندرہ کلومیٹر سے ایک کچا پکا ڈھائی کلومیٹر کا راستہ دربار صاحب کی طرف جاتا ہے۔
گردوارہ دربار صاحب کی قدیم عمارت دریائے راوی میں آنے والی سیلاب میں تباہ ہوگئی تھی۔ موجودہ عمارت سنہ 1920ء سے 1929ء کے درمیان 1,35,600 روپے کی لاگت سے پٹیالہ کے مہاراجہ سردار پھوبندر سنگھ نے دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ سنہ 1995ء میں حکومت پاکستان نے بھی اس کی دوبارہ مرمت کی تھی۔
گردوارے کے مرکزی دروازے پہ آنے والوں کے لیے ہدایات درج ہیں کہ گردوارے کے اندر انڈہ، مچھلی یا گوشت، سگریٹ، نشہ آور اشیاء یا اس طرح کی کسی بھی چیز کو لے جانے کی ممانعت ہے۔ آپ اپنا اصل شناختی کارڈ وہاں موجود پولیس اہلکار کو جمع کروائیں اور اندر چلے جائیں۔
گیٹ کے اندرونی دائیں جانب فائبر کی بنی ہوئی بیرکیں ہیں جو شاید یاتریوں کے قیام کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ان بیرکوں کے ساتھ ساتھ راستہ گھوم کے دائیں ہاتھ مڑتا ہے اور بائیں جانب سامنے ہی ”سری کھوہ صاحب‘‘ ہے۔
اس کنویں کے بارے میں روایت ہے کہ بابا گرو نانک اسی کنویں کے پانی سے کھیتوں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ اس کنویں کے باہر ایک مخروطی سے چبوترے پہ ایک سیمنٹ کا ستون ہے جس کو خوش رنگ ٹائلوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ اس ستون کے اوپری حصے کو شیشے سے بنایا گیا ہے تاکہ وہ ”بم‘‘ دیکھا جا سکے جو ہندوستان نے 1971ء کی جنگ میں گردوارے کو تباہ کرنے کے لیے پھینکا مگر سری کھوہ صاحب نے اس بم کو اپنی آغوش میں لے لیا اور یوں گردوارہ تباہی سے بچ گیا۔
گردوارے کے اندر داخل ہونے سے پہلے جوتے اور جرابیں اتارنا لازمی ہے۔ گردوارے کے داخلہ دروازے کے ساتھ ہی سر ڈھانپنے کے لیے پلاسٹک کی بنی ہوئی وہ ٹوپیاں ہیں جو عموماً ہماری مساجد میں نمازیوں کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ایک ڈیڑھ فٹ چوڑے، سات فٹ لمبے اور چار انچ گہرے مختصر سے تالاب میں پاؤں دھونے کا اہتمام ہے۔ سِکھ دھرم کی تعلیمات کے مطابق گردوارے میں داخل ہونے سے پہلے سر ڈھانپنا اور پاؤں دھونا لازمی ہے۔ صحن میں وہ تخت موجود ہے جہاں گرو نانک کی میت رکھی گئی تھی اور وہ چادر کے نیچے سے غائب ہو گئی تھی۔ بائیں ہاتھ گردوارے میں داخل ہو کے کچھ مزید کمرے ہیں جو مختلف مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے بنائے گئے ہیں۔
پہلی منزل پہ گرو گرنتھ صاحب رکھی ہوئی ہے۔ یہیں بھجن گایا جاتا ہے اور یہیں پہ گرو نانک کے زیر استعمال کرپان کی طرح کی دو بڑی بڑی کرپانیں موجود ہیں۔ لنگرخانہ ہمہ وقت مہمانوں کی خدمت کے لیے کھلا رہتا ہے۔ گردوارے کے باہر جہاں کہیں کھلا میدان ہوتا تھا وہاں اب یاتریوں کے لیے قیام گائیں بن چکی ہیں۔ ایک چھوٹا سا لان بھی باہر موجود ہے۔ میں نے گردوارے کے خدمت گار سے سوال کیا کہ یہاں یاتری کب کب آتے ہیں؟
اس کا کہنا تھا، ”کسی خاص اپھسر (موقع) پہ ساری دنیا سے یاتری یہاں درشن کرنے آتے ہیں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور راہ داری منصوبے پر کام مکمل ہوگیا اور اس کا افتتاح اس مہینے کے دوسرے ہفتے میں کیا جائے گا۔
ناروال ضلع کی تحصیل شکرگڑھ سے چند فرلانگ پر واقع پاکستان انڈیا زیرو پوائنٹ پر تعمیر ٹرمینل پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔
افتتاح سے قبل انڈین سکھ یاتریوں کو ٹرمینل سے کرتارپور گردوارہ تک لانے اور واپس لے جانے کے لیے بسیں بھی پہنچادی گئیں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کرتارپور راہ داری منصوبہ مکمل ہونے پر تمام مشینری ہٹا دی گئی ہے۔ منصوبہ اور توسیع گردوارہ منصوبہ پر فنشگ کا کام بھی مکمل ہوگیا ہے۔ منصوبہ پر کام کرنے والے کاریگراور مزدور کام سے فارغ ہوکرگھروں کو روانہ ہوگئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق افتتاح سے قبل کرتارپور میں سیکیورٹی کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ کرتارپور راہ داری کا باقاعدہ افتتاح 9 نومبر کو کیا جائے گا۔
گرودوارے سے انڈیا کی سرحد محض ڈھائی کلو میٹر دور ہے لیکن سکھ زائرین کو، اس کو عبور کرنے اور یہاں تک آنے کی اجازت کبھی نہ تھی۔ تاہم اب زیرِ تعمیر راہداری کے ذریعے سرحد پار بسنے والے سِکھ عقیدت مند گردوارہ کرتارپور صاحب باآسانی آ سکیں گے۔
انڈیا نے بھی زائرین کی آسانی کے لیے راستے کی تعمیر شروع کر رکھی ہے اور اس بارے میں تفصیلات پاکستان کو بھی مہیا کی گئی ہیں۔ انڈیا نے پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد پر یاتریوں کی آمد و رفت کے لیے گرداس پور میں واقع ڈیرہ بابا نانک کا انتخاب کیا ہے۔ نہ صرف سکھ بلکہ قریبی دیہاتوں کے مکین بھی اس پیش رفت سے بہت خوش ہیں۔
رفیق مسیح دودہا گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گاؤں گرودوارے سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ:
”یہ ایک جنگل کی مانند ہوتی تھی اور اب اس جگہ کو دیکھیں یہ پہچانی نہیں جا رہی۔‘‘
رفیق سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ راہ داری کے اطراف بسنے والے ہزاروں افراد کو ترقی کا باعث بنے گا۔ پُرامید چہرے کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ”اب یہاں سڑکیں، سکول، ہسپتال اور تجارتی مراکز تعمیر ہوں گے اور لوگ سال بھر یہاں آئیں گے جس سے بزنس بڑھے گا۔‘‘
ایک حلقہ ایسا ہے جو کشمیر میں بھارتی جارحیت اور بربریت کے موجودہ ماحول کی وجہ سے اس پیش رفت سے خوش نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک ہمیں ایسے تمام منصوبوں کو موخر کر دینا چاہیے تھا تاکہ کشمیریوں کے ساتھ تعلق کا حق ادا کیا جا سکتا۔
(مسافر شوق)