اسلام آباد میں منعقدہ احبابِ نثر کا آٹھواں اجلاس

مہینے میں ایک بار ہی تو یہ وقت آتا ہے جب اہلِ قلم مل بیٹھتے ہیں، ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں، تحریروں کا تبادلہ ہوتا ہے، گفتگو کے در کھلتے ہیں اور بے تکلف ماحول میں کسی بھی حفظ و مراتب کے بغیر یہ مصرع پڑھتے ہوئے:
”ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘
دوستانہ ماحول میں مل بیٹھتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ”تکلف میں ہے تکلیف سرا سر‘‘
تخلیق کے لیے ایسے ماحول کی زرخیز ی بہت ضروری بھی ہوتی ہے. احبابِ نثر کا آٹھواں اجلاس اپنے مخصوص مقاصد سمیٹے:
…مثبت رویوں کے فروغ کی تکمیل
…اہل قلم کا باہم مل بیٹھنا
…تڑکے کے طور پر اس پر گفتگوکرنا
دھیرے دھیرے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
آج کی تقریب کے لیے مہمانانِ گرامی کی آمد کے بارے میں کچھ تذبذب ساتھا کیوں کہ اس روز ایک ہی وقت میں بہت سے ادبی پروگرام ہو رہے تھے۔ہمارے پروگرام کا وقت بھی تبدیل ہوا تھا لہٰذا ہم نے وقتِ مقررہ پر کچھ نئے لوگوں کی آمد کی وجہ سے رسم تعارف شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً ستائیس کے قریب اہل قلم اس کا حصہ بن گئے. آج کی محفل میں جن چھ لوگوں نے اپنی تخلیقات پیش کیں ان کے نام یہ ہیں:
انجم خلیق ریڈیو کالم.
حسنین نازش نے امریکہ کے سفر نامے کا ایک باب.
ارشد محمود صاحب نے ایک بہت ہی شگفتہ تحریر خاکے کی صورت میں سنائی.
فہیم اختر، جو لاہور سے تشریف لائے تھے اور ہماری اس محفل میں پہلی دفعہ شریک ہوئے، ایک بہت ہی خوبصورت افسانہ سنایا.
رضوانہ سید نے تحریر دو گز زمین، شگفتہ انداز میں سچی اور تائثرات سے بھر پورتحریر سنائی، جسے احباب نے افسانہ ہی گردانا۔
ڈاکٹر کمیل نے ایک فارسی افسانے کا ترجمہ سنایا جس پر احباب نے کہا کہ یہ ان کی اپنی تخلیق لگ رہی ہے.
ڈاکٹر عزیز فیصل نے بھی اپنی فکر انگیز اور شگفتہ انداز میں لکھی ہوئی تحریر سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔
آخر میں آسٹریلیا سے آئے ہوئے ہمارے مہمان ڈاکٹر مبشر احمد، جو بڑی محبت اور چاہت سے اس مناثرے میں شامل ہوئے تھے، پیشے کے اعتبار سے تو وہ انجنیئر ہیں مگر ادب کا اعلٰی ذوق رکھتے ہیں، انہوں نے بھی ایک واقعہ سنا کر اپنا حصہ ڈالا۔

لطف کی بات تو یہ تھی کہ سامعین میں اکثریت خود بھی اعلٰی درجے کے لکھنے والے تھے مگر ان سب نے اپنے ہم عصر دوستوں کی تحریروں کو محبت سے سنا، سراہا اور ان پر گفتگو کی۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم اس روایت کو لے کر ثابت قدمی سے چل رہے ہیں ا ور راولپنڈی، اسلام آباد کے اتنے سارے اہلِ قلم کو مناثرے کی مقناطیسی قوت سے ایک نشست میں اکٹھا کرنے کی کامیابی میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مناثرے سے تحریم ظفر، ظفر صاحب اور فرحت سرور کی اہل قلم نہ ہونے کے باوجود جڑت ان کے اعلٰی ذوق اور ادب پرستی کا اہم ثبوت ہے۔ تحریم ظفر کی محبت کہ وہ تمام دوستوں کے لیے بہت ہی محبت سے میٹھا بنا کر لاتی ہیں۔ اب تو احباب کو ان کے تیار کردہ میٹھے کا انتظار رہتا ہے۔ آخر میں صاحب خانہ نے احباب کا شکریہ ادا کیا۔
شریکِ محفل اہل قلم:
1-رضوانہ سید
2-عابدہ تقی
3-سلمان باسط صاحب
4-ضیاءالدین نعیم
5-ڈاکٹرعلی کمیل قزلباش
6-ڈاکٹر عزیز فیصل
7-انجم خلیق
8-حسنین نازش
9-ارشد محمود
10-طاہرہ غزل
11-حمید قیصر
12-محمد علی
13-محبوب ظفر
14-فریدہ حفیظ
15-جمیل اختر
16-فہیم اختر
17-رخسانہ صولت
18-ڈاکٹر مبشر احمد
19-ظفر جاوید
20-ڈاکٹر محمد ایوب علوی
21-تحریم ظفر
22-فریدہ حفیظ
23-فرحت سرور
24-شہلا حسن زیدی
25-رباب تبسم
26-سعید انور
27-نعیم فاطمہ علوی

(رپورٹ مناثرہ اور نظامت: نعیم فاطمہ علوی)