سپت سندھوکے ہری یوپیہ میں مسافرانِ شوق کا انجذاب – ذیشان رشید

ہڑپہ

ہڑپہ کے کھنڈرات ساہیوال سے 25 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ ہڑپہ کو ہڑپہ کیوں کہا جاتا ہے اس کے بارے میں دو اہم روایات ہیں:
اول ایک قدیم کتاب ’’رگ وید‘‘ کے حوالے سے اس کا قدیم نام ’’ہری بوپا‘‘ یا “ہری یوپیہ” تھا جو بعد میں ہڑپہ بن گیا۔
دوئم، بعض ماہرین کی رائے ہے کہ ہڑپہ پنجابی زبان کے لفظ ہڑپ سے نکلا ہے جس کے معنی کھا جانے یا نگل جانے کے ہیں۔ جب اس قدیم شہر پر تباہی آئی تو مقامی لوگوں نے اسے ہڑپ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں ہڑپہ کہلانے لگا۔
اس تہذیبی مرکز کے کھنڈرات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر بہت سی قدرتی اور انسانی آفتوں نیز دریائے راوی کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کسی نہ کسی طور سے اب تک آباد چلا آ رہا ہے۔

جنوبی ایشیاء میں ہڑپہ سب سے پہلا دریافت شدہ تہذیبی آثار ہے جو 1856ء میں اتفاقاً اور ڈرامائی طور پر دریافت ہوا جب لاہور اور ملتان کے درمیان ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی۔ کچھ عرصہ تک تو یہ کھنڈرات ان ٹھیکیداروں کے لیے اینٹوں کی ایک کان بنے رہے جو ریلوے لائن بچھانے پر مامور تھے۔ انہی اینٹوں سے ساہیوال سے خانیوال تک ریل کی پٹڑی اور چھوٹے بڑے اسٹیشن تعمیر کئے گئے۔
ہڑپہ کے ملبے سے قدیم تہذیب کی مہریں اور دیگر آثار برآمد ہوئے جنہیں مشہور ماہر آثار قدیمہ جنرل ایگزینڈر کنگھم نے بڑی تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ جنرل کنگھم کی مداخلت پر ہی یہاں سے اینٹوں کی کھدائی رکوائی گئی لیکن اس وقت تک تقریباً آدھے کھنڈرات تباہ ہو چکے تھے۔ ہڑپہ کے موجودہ دریافت شدہ کھنڈرات کا رقبہ 125 ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔

ہڑپہ میں آثار قدیمہ کی باقاعدہ کھدائی 1921ء میں شروع ہوئی تو بہت جلد جنوبی ایشیاء کی یہ پہلی تہذیب دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اور دانشوروں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بن گئی۔
ہڑپہ شہر کے شمال مغربی حصے میں دریائے راوی کی قدیم گزر گاہ کے کنارے ہڑپہ کی سب سے اہم عمارت ’’عظیم اناج گھر یا غلہ گودام‘‘ کے آثار ہیں۔ یہ غلہ گودام 40 میٹر لمبے اور 35 میٹر چوڑے چبوترے پر بنایا گیا تھا گودام میں چھ چھ کی دو قطاروں میں بارہ کوٹھیاں یا ہال تھے۔ یہ کوٹھیاں چار فٹ اونچے چبوترے پر بنائی گئی تھیں۔ ہر کوٹھی دراصل ایک طویل ہال تھا جس کا فرش لکڑی سے بنایا گیا تھا تاکہ اناج کو نمی سے بچایا جا سکے۔ ہال روشن اور ہوا دار بنائے گئے تھے گودام کی وسیع و عریض عمارت کے دو حصے تھے جن کے درمیان 23 فٹ چوڑی سڑک تھی۔
ہڑپہ کے آثار میں اہم ترین اشیاء مہریں ہیں۔ انہی مہروں سے ماہرین ہڑپہ کے آثار کی قدامت اور تاریخ کا اندازہ لگایا ہے اکثر مہروں پر تحریروں کے ساتھ کسی جانور کی شکل بنائی گئی ہے جن میں ہاتھی، گینڈے، مگرمچھ، بیل اور شیر کی اشکال اہم ہیں مہروں کی تحریر ابھی تک پڑھی نہیں جا سکی۔ زیادہ تر مہریں پتھر سے بنائی گئی ہیں۔
بچوں کے کھلونے جو مٹی سے بنے ہوئے ہیں ان کی عام اشکال انسانوں اور جانوروں سے مشابہہ ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ خوشحال اور کھیلوں کے شوقین تھے بچوں کے کھلونوں میں مختلف حیوانات، پرندے اور بیل گاڑیاں شامل ہیں۔
ہڑپہ سے مٹی کے برتنوں کی کثیر تعداد دریافت ہوئی ہے وہ لوگ مٹی سے ہر طرح کے برتن بنانے میں بڑے ماہر تھے اناج ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے مٹکوں سے لے کر روز مرہ کے استعمال کے برتنوں تک وہ ہر قسم کے برتن کمہار کے چاک پر بنا لیتے تھے۔ برتنوں پر سرخ رنگ کیا جاتا تھا اور سیاہ رنگ کے بیل بوٹے بھی بنائے جاتے تھے۔

ہڑپہ کی قبروں سے مردوں کے ساتھ بڑی تعداد میں دفن کئے گئے برتن بھی ملے ہیں مردوں کو باقاعدہ برتنوں اور ذاتی اشیاء کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ حیات بعدازموت پر یقین رکھتے تھے۔ ہڑپہ میں تقریباً سو سے زیادہ جزوی تدفین کے آثار برآمد ہوئے ہیں یعنی مرنے کے بعد مردوں کو چرند پرند کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب محض ڈھانچہ باقی رہ جاتا تھا تو اس ڈھانچے کی تدفین کر دی جاتی تھی۔
1987ء سے اب تک امریکی ماہرین آثار قدیمہ پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے تعاون سے ہڑپہ شہر کے جنوبی حصے میں نئی کھدائی میں مصروف ہیں جس کی بدولت اب تک بے شمار اہم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں مکانات، سڑکیں، بھٹیاں اور کارخانے وغیرہ شامل ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہڑپہ تین بار تباہ ہوا کیوں کہ زمین کے نیچے سے جو مکان برآمد ہوئے ہیں وہ ایک ہی بنیاد پر تین مرتبہ تعمیر ہوئے تھے۔ ان مکانات کے صحن بڑے کشادہ اور بڑے سلیقے سے بنائے گئے تھے. پانی کے نکاس کا انتظام بھی مناسب تھا۔ زمین کے نیچے سے جو اشیاء یا کتبے برآمد ہوئے ہیں ان پر ایسی زبان لکھی ہے جسے آج تک کوئی نہیں پڑھ سکا اس لیے ہڑپہ کی کوئی ایسی تاریخ نہیں لکھی جا سکی جس پر اعتبار کیا جا سکے۔
کاروبار، سائنس، طرزِ تعمیر، اور بلند ترین شہری زندگی کی تمام خصوصیات رکھنے والی یہ تہذیب فنون لطیفہ میں بھی اپنی مثال آپ تھی۔ ”ڈانسنگ گرل‘‘ کا وجود اس معاشرے میں عورت کو حاصل خصوصی مقام اور فنون لطیفہ میں اس کے اہم ترین کردار کا آئینہ دار ہے۔
میں ہڑپہ کیوں جاؤں جب کہ میں تو وہاں پہلے بھی جا چکا ہوں۔۔۔
اس سوال کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ سنگی ساتھی جیسے ہوں، باہر کی دنیا بھی ویسی نظر آنے لگتی ہے۔ اس سفر پر میرے ہمراہ جو دوست جا رہے تھے ان میں ہر کوئی اپنے فن کا ماہر، اپنی ذات میں ایک کائنات تھا۔۔۔ مجھے ان سب سے بہت کچھ سیکھنا تھا اور ان کی مصروف زندگی میں جگہ بنا کے ان سے اپنے لیے کچھ مانگنے کا یارانہ تھا سو ایک پنتھ دو کاج کی بنیاد پہ یہ سفر طے ہو گیا۔
سفر کے آغاز میں ہی بلال نے ”مرغی کی گردن نما آلہ‘‘ دکھلا کر مجھے بے حد ”متاثر‘‘ کر دیا۔
یا اللہ، سنا تو یہ تھا کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے، مگر بلال کی باتوں سے یوں لگتا ہے جیسے ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک ”مرغی کی گردن نما آلہ‘‘ یا پھر ”مرزا غلام عباس‘‘ نما کوئی ڈاڈا، پیڈا دوست ہوتا ہے۔ گاڑی ہچکولے کھا رہی تھی، ہم لٹک مٹک رہے تھے مگر یہ آلہ اور عباس صاحب، دونوں اپنی جگہ پوری استقامت کے ساتھ موجود تھے۔ اس آلے کی مدد سے بلال نے پورے سفر کے دوران ہماری منظر کشی، تصویر کشی اور توجہ کشی کی البتہ نتائج دیکھنے کے لیے اپنی ویڈیو کے سامنے آنے کا انتظار کرنے کا حکم دیا۔
اور ہم ہیں کہ حکم یار پہ سر تسلیم خم کر دیا۔۔۔

راستے میں کھانے کے لیے ”تھڑا ہوٹل‘‘ ہمارا منتظر تھا۔۔۔
تھڑے ہوٹل کی مکس ویجیٹبل، فرائڈ دال، ساگ اور تھوڑا سا کُکڑ کھا کے جو بھاپ اڑاتی چائے حلق سے نیچے انڈیلی تو تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے جانے کا عمل اور بھی پُر فریب، اور بھی دل ربا، اور بھی دلکش ہو گیا۔
وہاں موجود ایک ”بلی‘‘ البتہ مجھے کافی پریشان کرتی رہی۔ رانا عثمان صاحب ساتھ ہوتے تو کچھ اس مسئلہ کو حل کرنے میں مدد دیتے۔۔۔
میں نے سنا ہے کہ انھیں “جنگلی بلیاں” بہتتتتتتتتتتتتت پسند ہیں۔۔۔
دھند اپنے جواب پہ تھی اور ریلوے پھاٹک بند تھا۔۔۔
گاڑی کی ہیڈ لائٹس جب ریلوے پھاٹک پر پڑیں تو یوں محسوس ہوا جیسے ہم کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے جا رہے ہیں۔
اور پھر ہم نے شوٹنگ کا فیصلہ کر لیا۔۔۔
میں اور بلال پھاٹک کے اندر کودے اور چپکے سے ٹرین کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔
اس لمحے میں اور بلال کسی ”قیدو‘‘ سے کم نہیں لگ رہے تھے جو ”رانجھے‘‘ کی خبر لینے دبک کر بیٹھا ہو اور سوچ رہا ہو کہ،
”اوئے میں ٹبر کھا جاواں تے ڈکار وی نہ ماراں‘‘

تھوڑے سے صبر آزما انتظار کے بعد بالآخر ہمیں دور سے ٹرین آتی ہوئی نظر آئیں۔ میں اور بلال اپنا اپنا کیمرہ سنبھالے ٹرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے مکمل تیار تھے تھے۔ جیسے ہی ٹرین ہمارے قریب پہنچی میں اور بلال اپنا کیمرہ سنبھالے فوری طور پر اس منظر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی یادوں میں محفوظ کرنے کے لیے برسرپیکار آگئے۔
ٹرین کا ہمارے پاس سے گزرنا یوں لگا جیسے دیوسائی کے براؤن بئیر نے ہمیں گھٹ کے جپھی ڈال لی ہو۔۔۔
یہ مشن مکمل کرکے واپس گاڑی میں پہنچے تو سوچا تھا کہ باقی ساتھی ہمارے زندہ سلامت واپس آنے پر پھولوں کے ہار لے کر آرا استقبال کریں گے، مگر ظالموں نے نظر اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔
کسووال، انگریز کے دور کا بسایا ہوا بندوبستی گاؤں جہاں کی گلیاں آج بھی ”ماچس‘‘ فلم کے اس گیت کا عملی نمونہ ہیں جن کو چھوڑنے کا دکھ شاعر کو پہاڑوں میں جا کے بھی کم نہیں ہوتا۔
رات کے گھپ اندھیرے میں کسووال میں داخل ہوئے تو عبدالغفار نامی ایک مجسم جدوجہد لازوال دوست نے اپنی محبت سے لبریز بانہیں پھیلا کر ہمیں خوش آمدید کہا۔
بیٹھک میں لگی ”منجیاں‘‘ (چارپائی) ہمیں دعوتِ خواب دے رہی تھیں لیکن ہمیں تو آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھ کے من بے صبرے کی ٹکور کرنی تھی، پریوں کی کہانیاں سننی تھیں، دکھ سکھ بانٹنا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پانچ کلو مونگ پھلی مکانی تھی جو ہمارے ہمراہ تھی۔ سو محفل جمی، باتیں شروع ہوئیں اور ہم فرقہ مسافریہ کے مجذوبوں کی داستان جذب و شوق سنتے چلے گئے، سر دھنتے چلے گئے۔
ہر کسی نے محفل کا لطف دوبالا کیا۔ رونق بڑھائی اور اپنے اپنے انداز بیاں کی دھونی رمائی۔ اس وقت تم مجھے بہت یاد آئی لیکن ابھی چھلک جانے کا وقت نہیں تھا۔ بستر پر پہنچ کر میں اگلے دن کے بارے سوچنا چاہ رہا تھا لیکن نہیں سوچ سکا۔
صبح سویرے ساگ اور دیسی گھی کی چپڑی ہوئی روٹیاں ناشتے میں میسر تھیں۔ اس دعوت شیراز سے نمٹ کر ہم اس تہذیب کی دہلیز پہ تھے جو ہمہ یاراں ہم کو دیکھنا تھی۔ مزمل چیمہ صاحب، عبد الغفار صاحب اور استاد محترم کاشف علی جیسے ذی مرتبت، مینارہ علم و نور کی معیت میں ہڑپہ سے شرف ملاقات ملنے کو تھا۔ شہر کی بیرونی مسمار ہو چکی دیوار اور ”میم کا کھڈا‘‘ مجھے کسی اور جانب دھیان نہ کرنے دیتے تھے۔
یہ دیوار شہر کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی اور اس مناسبت سے اس زمانے کی دیوار چین رہی ہو گی۔ اس دیوار کے راستے پہ سفر کرتے ہوئے اس احاطے میں بنے ایک مزار تک جا پہنچے جہاں تین فنکار روزی روٹی کے چکر میں پڑے اپنا وقت کاٹ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ان کے ساز جاگ اٹھے اور انھوں نے سر بکھیرنا شروع کر دیے۔

میں مزار کی چوکھٹ پہ جا پہنچا۔ آنکھیں بند کیں اور کچھ دیر کے لیے دنیا و مافیا سے بے خبر ہو گیا۔
عرض کیا،
”سرکار، آزمائش بڑھتی جا رہی ہے، میں مکتی چاہتا ہوں۔ اس گورکھ دھندے سے تھک چکا ہوں۔ وہی سکوت چاہیے جس پہ کبھی تقریر فدا تھی۔
سرکار، اذن رہائی دے دیجیے، بساط سے بڑھ کر بوجھ اٹھا لیا تھا۔۔۔ اسے پھینکنا نہیں چاہتا، منتقل کروا دیجئے کہ
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
اکھاں چھم چھم وسیاں ہائے اور بہت دیر تلک وسیاں پھر آواز آئی۔
مسافر ہو اور شوق کا تعویذ بھی پہن رکھا ہو تو ابھی سے کہاں رہائی ملے گی۔
ابھی تو سل پہ پسنا ہے، ابھی تو رنگ نکلنا ہے، ابھی تو ضبط کی دیوار کے اس پار جھانکنا ہے۔
ابھی تو ڈھول بجے گا، ابھی تو جذب ٹوٹے گا، ابھی تو اناالحق کا نعرہ لگے گا۔۔۔پھر کہیں جا کے رہائی ملے گی۔۔۔سو چلتے رہو اور چلتے رہو‘‘
میں نے آنکھیں کھول دیں، کوئی پکار رہا تھا۔۔۔
آئیے صاحب آپ کی تصویر بنانی ہے۔۔۔
تصویر بنانا کوئی اس سے سیکھے۔۔۔

(مسافر شوق)

سپت سندھوکے ہری یوپیہ میں مسافرانِ شوق کا انجذاب – ذیشان رشید” ایک تبصرہ

تبصرے بند ہیں