ڈاکٹر مبارک علی کا تاریخی رجحان – اقصیٰ عباس

”علمی سفر کی ابتداء تو ہوتی ہے اس کی انتہا کوئی نہیں. جب یہ سفر شروع ہوتا ہے تو جستجو اور اشتیاق کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، تخیلات کی دنیا آباد ہوتی ہے۔‘‘
معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے یہ الفاظ ایک تخلیق کار کو آگے بڑھنے کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسے ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب آپ کے لیے علم کے دروازے کھولتی ہے ویسے ہی ڈاکٹر مبارک علی کی تخلیقات ہمارے علم کے دروازے کھولتی ہیں اور ان کی تخلیقات سے جستجو اور اشتیاق کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ تاریخ ان کا بنیادی موضوع ہے۔ انہوں نے پچھلے تیس برسوں میں ستر کتابیں لکھی جو سب کی سب تاریخ کے کسی نہ کسی موضوع کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کی کتابوں سے چند اہم رجحانات سامنے آئے ہیں مثلاً پہلا یہ کہ وہ تاریخ کو محض بادشاہوں، حکمرانوں، سیاسی خاندانوں اور محلاتی سازشوں تک محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ عوام کو تاریخ کا اصل موضوع اور مواد سمجھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ماضی کے معاشروں، ان کی تہذیبی سرگرمیوں اور ان کے آثار و افکار کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتے ہیں اور یوں ماضی کا ایک ذیادہ مبسوط اور ہمہ گیر منظر نامہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
تاریخ کے حوالے سے ان کے موضوعات ”تاریخ نویسی کیا ہے‘‘ مسلمانوں کی تاریخ نویسی، برصغیر کی تاریخ نویسی، یورپی اور امریکی تاریخ نویسی کے رجحانات کو تحقیق کے آئینے میں غیر جانبداری سے آشنا کیا۔ ابتداء میں جب تاریخ تحریری شکل میں آئی تو اس وقت انسانی معاشرے میں بادشاہت کا دور دورہ تھا۔ یعنی تاریخ نویسی پر صرف شخصیتوں کی چھاپ رہی اور عام عوام اس دائرہ سے دور تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہت کے دور میں کس طرح انسانی عظمت و وقار کو کچلا گیا ہے۔ بادشاہت کے دور حکومت میں اس قسم کی رسومات مثلاً بادشاہ کو سجدہ کرنا، پاؤں کو چھونا، جھک کر آداب کرتے وقت نظریں نیچی رکھنا وغیرہ جو عوام کو انسانی عظمت سے گرا دیتی تھیں۔
ڈاکٹر مبارک علی عوام میں تاریخی شعور بیدار کرتے ہوئے اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کو ان طبقاتی مفادات کی زنجیروں سے آزاد کرایا جائے اور اسے تنگ و محدود دائرے سے نکال کر آزاد، وسیع اور کھلی فضا میں لایا جائے تاکہ اس کے ذریعے سوتے ہوئے عوامی شعور کو بیدار کیا جائے سکے۔
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ تاریخ کے مرحلے سے گزرنے کے لیے مجھے تاریخی فکشن کو پڑھنا ضروری تھا اور اس کے لیے میں نے سارے تاریخی ناول پڑھ ڈالے اور انگریزی میں ترجمہ کیے ہوئے روسی فرانسیسی اور جرمنی زبانوں کے ناول بھی پڑھے۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ:
”میں نے فکشن کو پڑھ کر تاریخ کو سمجھا۔ تاریخ جو محض واقعات کی اسیر ہوتی ہے وہ فکشن کا مقابلہ نہیں کر سکتی کہ جو انسان کی گہرائیوں میں جا کر ان کا مطالعہ کرتا ہے. لیکن اگر دونوں کا ملاپ ہو جائے تو انسان اور معاشرہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
تاریخ کو سمجھنے کے لیے آثار قدیمہ کی دریافتوں اور ان کی بنیاد پر ماضی کی تشکیل جس نے انجان دنیا سے روشناس کرایا ان کی بھی معلومات ضروری ہے اور اس کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ:
”میں نے آثار قدیم کے علم سے بہت کچھ سیکھا کہ تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے. یہ تسلسل ٹوٹتا رہا ہے جسے آثار قدیمہ جوڑ رہے ہیں مگر اس تسلسل میں برابر تبدیلی آ رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر مبارک علی کی ایک اہم خدمت یہ ہے کہ انہوں نے مشکل اور پیچیدہ موضوعات پر بہت سادہ اور عام فہم زبان میں اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصب سے خود کو دور رکھتے ہیں اور اس کے متعلق ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ:
”وہ تعصبات جو بالعموم رنگ و نسل ، مذہب و ملت اور ملک و قوم کے وسیلے سے ہماری سوچ و فکر کو مسخ کرتے ہیں، ڈاکٹر مبارک علی ان سے خود کو آزاد رکھ کر تجزیہ نگاری کا کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے نتائج فکر بہت سوں کے لیے حیران کن اور بعض اوقات نا قابل برداشت ثابت ہوتے ہیں.‘‘
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں علمی سطح پر اتفاق و اختلافات کا کلچر بھی پروان نہیں چڑھ سکا، جس کی وجہ سے لوگ اپنی رائے سے مختلف رائے کو سننے اور برداشت کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی کی باتیں ضروری نہیں سو فیصد درست ہوں لیکن وہ صرف اصل حقیقت سے پردہ اٹھا کر تاریخ کی حقیقی اور صحیح تصویر عوام کے سامنے لے کر آئے. یہی تاریخ کی وہ تفسیر ہے جو عوام میں شعور و آگہی اور تاریخی شعور بیدار کرے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں