1706ء میں شیخوپورہ سے 14 کلومیٹر دور ایک قصبے جنڈیالہ شیر خان میں ایک علمی، ادبی اور روحانی شخصیت نے جنم لیا جسے دنیا وارث شاہ کے نام سے جانتی ہے۔ 1766ء میں وارث شاہ نے پنجاب کی ایک لوک داستان کو اپنے لافانی انداز بیان میں ڈھال کر دنیا کے سامنے ”ہیر‘‘ کے نام سے پیش کیا جو اب پنجابی ادب میں لازوال داستان کا مقام حاصل کر چکی ہے۔
کہانی کی رو سے،
ہیر کا تعلق ضلع جھنگ میں آباد ”سیال‘‘ قبیلے سے تھا اور وہ انتہائی خوبصورت اور پرکشش تھی۔ علاقہ بھر میں اس جیسی حسین لڑکی نہیں تھی۔ رانجھا دریائے چناب کے کنارے آباد ایک گاؤں تخت ہزارہ کا باسی تھا اور اس کا اصلی نام دھیدو تھا۔ اس کے تین بھائی کھیتی باڑی کرتے تھے مگر باپ کا چہیتا ہونے کے ناطے وہ جنگلوں بیابانوں میں پھرتا اور ونجلی (بانسری) بجاتا رہتا تھا۔ والد کی وفات کے بعد رانجھےکا دور ابتلا شروع ہوا۔ پہلے زمین کے معاملات پر اس کا بھائیوں سے جھگڑا ہوا اور پھر بھابیوں نے اسے کھانا دینے سے انکار کر دیا نتیجتاً رانجھے نے اپنا گاؤں چھوڑا اور پھرتے پھراتے ہیر کے گاؤں جا پہنچا اور اسے دیکھتے ہی اپنا دل دے بیٹھا۔
ہیر نے جب رانجھے کو بے روزگار پایا، تو اسے اپنے باپ کے مویشی چرانے کا کام سونپ دیا۔ رفتہ رفتہ رانجھے کی ونجلی نے ہیر کا دل موہ لیا اور وہ مٹیار اس اجنبی سے محبت کرنے لگی۔ یہ سلسلہ محبت ہیر کے چچا کیدو کو پسند نہ آیا اور اس کے اکسانے پر ہیر کے ماں باپ (چوچک اور مالکی) نے زبردستی اس کی شادی سیدے کھیڑے سے کر دی۔ محبت کی ناکامی سے رانجھے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ ہیر کا گاؤں چھوڑکر جنگل جنگل گھومنے لگا۔
ایک دن اس کی ملاقات بابا بالناتھ سے ہوئی جو جوگیوں کے ایک فرقے ”کن پھٹا‘‘ کا بانی تھا۔ رانجھا چوٹ کھایا ہوا اور شکستہ دل تھا اور دنیا کی بے ثباتی، خود پہ بیتنے والے اس سانحے کی صورت اس پر عیاں ہو چکی تھی سو اندرونی احساس محرومی اور خلفشار کے باعث رانجھے نے خود کو بالناتھ کے ہاتھوں سونپنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس ملاقات کے بعد رانجھے نے اپنے کان چھدوائے اور دنیا کو خیر باد کہہ بالناتھ کا بالکا بن گیا۔ وہ گاؤں گاؤں، نگر نگر اپنی کھپری لے کر پھرتا اور لوگوں سے خیر مانگتا۔
عجب اتفاق کہ ایک روز اسی طرح گھومتے پھرتے رانجھا اس گاؤں پہنچ گیا جہاں ہیر بیاہ کے گئی تھی۔ سوئی ہوئی محبت جاگنے لگی تو رانجھے کو بالناتھ کی نصیحت یا دآ گئی جو اس نے رانجھے کو جوگ لیتے ہوئے کی تھی۔۔۔
فرط جذبات سے لبریز ہو کر رانجھا اس رو میں بہہ گیا جسے محبت، عشق اور بے تابی کہتے ہیں۔
آخر ہیر کے والدین دونوں کی شادی پر رضا مند ہو گئے مگر حاسد کیدو نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا۔ جب رانجھے کو یہ بات معلوم ہوئی، تو وہ اپنی محبوبہ کے پاس بھاگا آیا۔ جب ہیر کو مردہ دیکھا تو زہریلا لڈو کھا کر اس نے بھی خودکشی کر لی۔
قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ کہانی درست نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وارث شاہ کو ایک ہندو عورت ”بھاگ بھری‘‘ سے محبت ہوئی تھی۔ اس کو حاصل نہ کر پانے کے بعد وارث شاہ نے اپنا دکھ ان فرضی کرداروں کی شکل میں کہانی بنا کے پیش کیا جو غیر معمولی شہرت حاصل کر گیا۔
ہیر کا اصل نام ”عزت بی بی‘‘ تھا جب کہ رانجھا ”مراد بخش‘‘ تھا۔
اصل واقعہ کچھ یوں ہے کہ،
مخدوم سید کبیر جو سیالوں کے مرشد تھے، ہیر کے والد چوچک سیال کے ہاں تشریف لائے۔ چوچک اولاد سے محروم تھا اس نے مرشد سے اولاد کے لیے دعا کرنے کی فرمائش کی۔ مخدوم نے دعا فرمائی اور کہا:
”اولاد نرینہ تیرے نصیب میں نہیں البتہ ایک لڑکی ایسی ہو گی جس کی نیکی کی وجہ سے تیرے خاندان کو شہرت عطا ہو گی۔‘‘
عزت بی بی نے پاکیزہ ماحول میں پرورش پائی۔ کلامِ پاک حفظ کیا اور راہ سلوک کی منزلیں طے کیں۔ رانجھا اور اس کا خاندان مخدوم سید کبیر کے مرید تھے۔ مراد بخش نے مرشد سے دریافت کیا کہ مجھے کسی ایسے آدمی کا نام بتائیے جس کی خدمت میں رہ کر میں کچھ حاصل کر سکوں، مرشد نے ہدایت کی کہ جھنگ کی عزت بی بی کے پاس چلے جاؤ وہ عارفہ ہے۔ مراد بخش عزت بی بی کے ہاں حاضر ہوا تو ان کی خدمت پہ مامور ہو گیا۔ باقی تمام تفصیلات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
وارث شاہ نے اپنی کہانی میں رانجھے کے ٹلہ پر آنے اور کان پھڑوانے کا سبب ہیر کی دوبارہ اس کی زندگی میں واپسی کی خواہش لکھا ہے۔
مینوں ہیر دی طلب اے ہیر بخشو، ہیر ہیر میرا جیو منگدائی
ناتھا واوٰ کولوں جیویں ڈرے دیوا، تیویں ہورناں کولوں جیو سنگدائ
گورو بالناتھ نے رانجھے کے کندن جیسے بدن پر راکھ ملی، کان چھد کر ان میں مندرے ڈالے، کھپری، سیلی اور ناد عطا کیے اور جوگ دیتے لمحے نصحت کی:
پتر پاک بازی کی زندگی گزارنا، عورتوں میں اس طرح رہنا جس طرح خصی بیل گائیوں میں رہتا ہے اور جوان عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا۔ لنگوٹ کے پکے اور سچے رہنا۔
یہ سن کر بگڑے جاٹ نے دل میں سوچا:
میں جاندا عشق تھیں منع کرنا تیرے ٹلے تے دھار نہ دھادا میں
کاہنوں کن پڑوا کے سواہ ملدا، ہوکے چھودھری تخت ہزار دا میں
یہ صورتحال جب گرو کو معلوم ہوئی تو وہ چکر گیا اور اس کیفیت کو وارث شاہ نے یوں لکھا:
ٹھگی مار کے جٹ نے داوٰ بھریا، بالناتھ جیہا سنڈا چوئیائی
گورو نے اس منہ زور گھوڑے پر لگام ڈالنے کی بڑی کوشش کی لیکن رانجھا عشق کی آگ میں تڑپ رہا تھا سو ہیر ہیر کرتا وہاں سے نکل گیا۔
یوں تو ٹلہ پہ پہنچنے کے کئی راستے ہیں لیکن عمومی طور پہ جو راستہ زیادہ اختیار کیا جاتا ہے اور نسبتا آسان سمجھا جاتا ہے وہ روہتاس سے بھیٹ گاؤں تک آنے والا راستہ ہے۔
روہتاس سے 23 کلومیٹر آگے بھیٹ گاؤں تک کا سفر ایک طلسماتی دنیا کے سفر سے کسی صورت کم نہیں۔ ماحول کی خاموشی، راستے کے بل پیچ اورشکیل صاحب جیسے ہمراہیوں کی کلکاریاں اس ساری کیفیت کو دو آتشہ کیے دیتی ہیں۔
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ اس سارے علاقے میں کبھی سمندر ہوا کرتا تھا۔ پھر پانی نے اپنا مقام تبدیل کیا اور اپنی یادیں چھوڑ کے دوسرے علاقوں کی طرف رانجھا بن کر نکل گیا۔
روہتاس کے آس پاس روحانیت کی بے شمار ان کہی داستانوں کے انمٹ شواہد موجود ہیں۔ اس قلعے کی تعمیر بذات خود کسی معجزے سے کم نہیں۔ بھیٹ گاؤں میں گاڑی کھڑی کر کے اوپر کی جانب اٹھتا راستہ آپ کو دو گھنٹوں میں چوٹی تک پہنچا دیتا ہے۔ راستہ قدرے پتھریلا مگر انتہائی دلکش اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے مناظر سے بھرپور ہے۔ وقفوں وقفوں سے نیچے وادی کی طرف نگاہ جاتی ہے تو ہر موڑ تصویر کا کوئی نیا رخ پیش کرتا ہے۔ جا بجا اگا ہوا قدرتی جنگل، پوسے، جھاڑیاں اپن مہک اور لہک کے ساتھ ہمیں بار بار رکنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ہمارا قافلہ 27 لوگوں پر مشتمل تھا جس میں 4 بچے بھی شامل تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ بچوں کی وجہ سے شائد ہمیں ٹریک مکمل کرنے میں کچھ زیادہ وقت لگے لیکن بچے ہماری توقع سے زیادہ تیز نکلے اور ہم سے کہیں پہلے اوپر پہنچنے میں کامیاب رہے۔ تمام راستہ مسافرانِ شوق ہنستے کھیلتے، شرارتیں کرتے ایک دوسرے کو لبھانے میں مشغول رہے۔
سفر کے آغاز پہ مطلع ابر آلود تھا اور بارش کے امکانات تھے جس کے بعد ٹریک تھوڑا مشکل ہو جاتا کہ بارش میں پتھروں پہ پاوں زیادہ پھسلتا ہے مگر شکر الحمدللہ کہ موسم نے ہمارا امتحان نہ لیا اور کچھ ہی دیر میں ناصرف بادل چھٹ گیا بلکہ دھوپ بھی نکل آئی۔ اوپر پہنچ کر کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے اپنی سرگرمی کا آغاز کیا۔ اس سرگرمی کا عنوان تھا:
”ویکھ میرا پنجاب‘‘
اس سرگرمی کے تین بنیادی مقاصد تھے:
1۔ پنجابی زبان، ثقافت، طرزِ زندگی، رہت بہت، ادب، فنون لطیفہ اور اس سے جڑے مجموعی معاملات کو پھر سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانا اور نوجوان نسل میں یہ اثاثہ پوری ذمہ داری سے منتقل کرنا۔
2۔ پنجاب میں سیاحت کے فروغ کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اپنا حصہ ڈالنا اور پنجاب کی سیاحت کو فروغ دینے بارے تجاویز کا تبادلہ کرنا۔
3۔ کرنل عبدالجبار بھٹی کی حالیہ کامیابی جو کہ انھوں نے ارجینٹائن میں موجود 6962 میٹراونچے پہاڑ ماؤنٹ ایکو کانگوا کو سر کرکے حاصل کی ہے، اس کو سراہنا اور ان کے 7 سمٹ مشن کی کامیابی سے تکمیل کے لیے ان کو اپنی نیک تمنائیں پہنچانا۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام مجید سے کیا گیا جس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی۔ ڈاکٹر کاشف علی نے پنجاب کی مختصر مگر جامع تاریخ بیان کی اور پنجاب کی ثقافت بارے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ عثمان ضیا صاحب نے پنجاب کی سیاحت کے فروغ کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ عباس ضیا صاحب نے سیاحتی توازن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے اپنی تجاویز سامعین کے گوش گزار کیں۔ شہزاد سلیم صاحب نے پنجابی ادب کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کچھ پہلووں پر روشنی ڈالی۔ طارق محمود صاحب نے ارضیاتی علوم کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے سیاحت میں ان کی افادیت اور اہمیت پہ بات کی۔
آخر پر کرنل عبدالجبار بھٹی نے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ اس بات کو پوری شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ ہم اپنی جڑوں سے کٹ رہے ہیں۔ ہم اپنی مادری زبان سے اپنا تعلق کمزور کر بیٹھے ہیں۔ ہمارا بچہ آج اپنے لسانی اور ثقافتی ورثے سے آشنا نہیں ہے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ اردو قومی رابطے کی زبان ہے اور اس کی اہمیت کو کسی صورت نہ کم کیا جا سکتا ہے اور نہ اس سے فرار ممکن ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی مادری زبان سے اپنی آنے والی نسلوں کو پیار کرنا سکھانا اور تربیت کے نقطہ نظر سے اس کی اہمیت کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہم جب تک اپنی زبان، اپنی بنیاد سے نہیں جڑیں گے، تب تک ہم اپنے طرز زندگی کو مضبوط اور مستحکم خطوط پہ استوار نہیں کر سکتے۔
کرنل صاحب کے اس موقف کی نہ صرف بھرپور تائید کی گئی بلکہ اس بات پر اتفاق رائے بھی ہوا کہ ان تمام نکات پہ تفصیلی کام کرنے اور ان کو منظم انداز میں سب کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے جس پہ تمام دوست اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔
اس گفتگو کے بعد ہم بابا گورونانک کی یادگار چلہ گاہ کی طرف چل پڑے جہاں انھوں نے روحانیت کے راز سمجھنے کے لیے دھیان گیان کی محفل سجائی تھی۔ یہ ٹلہ کا وہ مقام ہے جہاں داخلی کیفیات میں باہر کے نظارے سے رابطے میں آتے ہی جلترنگ بجنے لگتا ہے۔
اس مقام سے تھوڑا آگے ایک پتھر نہ جانے کتنی صدیوں سے میرا منتظر تھا۔ میں اس کی جانب لپکا اور وہاں بیٹھ کر خود احتسابی کی کدال سے اپنا آپ کریدنے لگا۔ میں زماں و مکاں سے بہت دور کہیں دور جا چکا تھا۔ مجھے اپنے وجود کی کثافتوں کو انہی ہواوٗں میں تحلیل کرنا تھا وگرنہ اند کے بوجھ سے ریزہ ریزہ میرا وجود کہیں بکھر کے رہ جاتا۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
میں گورو بالناتھ کا بالکا بن کے اپنی انا کے کان پھڑوانا چاہتا تھا۔ مجھے مجھ سے رہائی چاہیے تھی۔
مجھے خود پہ فتح درکار تھی۔۔۔
میں نے وجود کی تمام تر توانائی مجتمع کرکے خود کو فضا میں اچھالا اور دور کہیں آسمانوں میں ڈوبتے سورج کے ساتھ پہاڑ سے نیچے اترنے لگا۔۔۔
میں اٹھا اور اپنے آپ سے پوری شدت کے ساتھ بغل گیر ہوا۔۔۔ جدا ہونے کے لیے۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہونے کے لیے۔۔۔
سکون بھری ایک دلپذیر مسکراہٹ میرے چہرے پہ پھیل چکی تھی۔۔۔
اس مسکراہٹ کے ساتھ غروب آفتاب کا منظر اور بھی دلپذیر لگ رہا تھا۔
(مسافر شوق)