کتاب پڑھنے کی چاہت مجھ میں کبھی معدوم نہیں ہو سکتی۔ مدھم ہونے کی کیفیات تو ہوتی رہتی ہیں۔ مصروف و فرصت کے شب و روز گزر رہے تھے کہ اک دن پیاری دوست فہمیدہ فرید خان، جو خود بھی بہت اچھا لکھتی ہیں اور حال ہی میں اپنا پہلا آن لائن ناول مکمل کر چکی ہیں (شنید ہے کہ جلد شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا) نے مجھ سے میری پسند کی کتاب، جو میں پڑھنا چاہتی ہوں، کے بارے استفسار کیا۔ مجھے تو اک سے زیادہ کتب کی تلاش و چاہ رہتی ہے، وہ الگ بات کہ بہت سی کتابیں میری للچاتی نگاہوں میں اٹکی ہوئی ہیں اور ان کے نام کسی مخلص دوست کے سامنے لینے میں ہچکچاتی ہوں لیکن اس دن کچھ ایسے موڈ میں تھی تو کہہ دیا ہاں مجھے اک سفرنامے کی تلاش ہے جو صحرا تکلمکان کے بارے میں ہے۔ پی ڈی ایف یا آن لائن کتب پڑھنے کا میرا کھاتہ تقریباً صفر ہے. یہ سفرنامہ پی ڈی ایف میں شاید میسر ہے۔ خیر فہمی نے کہا بس ٹھیک ہے میں تلاش کرتی ہوں۔ لیکن پھر ان کی تلاش بھی ناکام ہوئی تو مجھ سے پوچھا: آپ نے آمنہ مفتی کو پڑھا ہے میرا جواب تھا نام سنا ہے لیکن انہیں پڑھا نہیں ہے۔ تو پھر ان کی طرف سے یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہوا۔ اک دن ہم جب گھر آئے تو اک سرپرائز پارسل ہمارے لیے موجود تھا۔ اب تجسس تھا کہ فہمی سے کی گئی اس کتب گفتگو کو بھی دو ماہ تو ہو ہی چکے تھے. تو یہ کلی طور پر سرپرائز ہی تھا۔ پارسل کھولا تو دو ناول میرے نام کے موجود تھے۔ ان میں سے ایک “جرات رندانہ” کم ضخیم تھا تو سوچا پہلی بار پڑھنا ہے اسی سے شروعات کرتے ہیں۔
ناول کی بنت نے شروع سے ہی گرفت میں لے لیا۔ سادہ اسلوب کا یہ ناول مجھے قرۃ العین حیدر، بانو قدسیہ اور الطاف فاطمہ کے اسلوب کی یاد دلا گیا۔ناول کا پلاٹ اک سادہ سی کہانی پر مشتمل ہے۔ قاری کو کسی قسم کی پہیلیاں یا پس تحریر گتھیاں سلجھانے کی فکر سے آزاد اک رواں تحریر لیے ہوئے۔ آمنہ مفتی کا یہ پہلا ناول ہے۔ سر زمین پاکستان سے جڑے رہنے، اپنے خوابوں کو مکمل کرنے کے لیے کچھ ایسے فیصلے لینے والوں کے بارے جو شاید عمومی طور پر قابل قبول نہ ہوں جب کہ بہترین رستے چننے، آسان زندگی اختیار کرنے کی راہیں بھی کھلی ہوں۔ یا پھر آسان زندگی کو حاصل کرنے میں زندگی کو داؤ پر لگانے والی راہیں اختیار کرنے والوں کی زندگی کے نشیب و فراز کا اس ناول میں خوبصورت بیان ہے۔ جرات رندانہ کا نہ ہونا اور پھر اس پر قناعت کر لینا جو حقیقت میں جوں اور جیسا ہو…
مجموعی طور پر کچھ کتابت کی غلطیوں کے سوا یہ بلاشبہ اک اچھا ناول ہے۔ اس خوبصورت ناول کو الفیصل ناشران کتب، لاہور نے شائع کیا ہے.
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق
بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کی کم یابی – ثاقب محمود بٹ
”رُوبرُو“، ہماری سیاسی تاریخ کے چند اہم گوشے – محمد اکبر خان اکبر
”جُھوٹے رُوپ کے درشن“، راجہ انور کی سحر انگیز داستانِ عشق– محمد عمران اسحاق
ایک سو نادر و شاہکار کتابوں کے تعارف پر مشتمل ستار طاہر مرحوم کی تصنیف ”دنیا کی سو عظیم کتابیں“ – محمد عمران اسحاق
کسٹمز آفیسر، میڈیکل ڈاکٹر، سماجی کارکن اور ممتاز ادیب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا حجاز نامہ، ”رب رحمان کے مہمان“ – اسد اللہ
ممتاز شاعر طاہرؔ حنفی کا چھٹا مجموعہ کلام ”آوازِ گُم شُدہ“ – راشد منصور راشدؔ
”چراغ تلے روشنی“، معروف ادیب و صحافی ظہیر احمد سلہری کی اثر انگیز تحریریں – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز صحافی اور ادیب رؤف کلاسرا کی دلچسپ کتاب، ”جونا گڑھ کا قاضی، دکن کا مولوی“ – اسد اللہ
بہت شکریہ سمیرا انجم اس عزت افزائی کیلئے 😊