حُسن پرست دیو کی حسین راجدھانی، ”دیوسائی‘‘ – سمیرا انجم

دیو سائی اک طلسم ہوشربا کا نام ہے جس کو سننے والوں پر ایسا سحر طاری ہو جاتا ہے کہ پھر ان کی روحیں وجدان میں آئے بناء نہیں رہ سکتیں۔ کم از کم میرے جیسی روحوں کے حال مست سے مجھے آگاہی ہے کہ ان پر یہ لفظ کیا جادو کرتا ہے۔
”میں جس جگہ تجھے لے جانا چاہتی ہوں وہاں
نہیں ہے وقت کا نام و نشاں، چل میرے ساتھ‘‘
یہ اک دعوت تھی، اک نقارہ تھا، اک ندا مستانہ تھی جو سفر کو اختیار کرنے والی اک خبطی روح کے لیے تھی. لیکن اس کی بازگشت کہیں میرے لیے بھی تھی۔ کہیں میرے لیے بھی ان لفظوں کا رزق لکھا جا رہا تھا جو مجھے اس سفر سے واپسی پر لکھے جانے تھے، اک خبطی روح کے توشہ سے۔
میں یہاں وہاں ان کی بازگشت سن رہی تھی اور دھیمی آواز میں اپنی بھی روح نے کہیں گھنٹی بجائی تو اس خبطی روح کا اک سندیسہ ملتا ہے کہ اپنے مسکن کا پتہ دیجیے. اور پھر دنیا میں ہماری آمد کے یوم خوشی و حیرت پر دیوسائی کی سرگوشیاں چلی آرہی ہیں اور خوشی کی جلترنگ نے دل میں اودھم مچا دیا۔ سفر نامے کو محاورتاً نہیں حقیقتاً بوند بوند کرتے ہوئے روح میں اتارا کہ جب بھی کتاب پکڑتی تو روح میں ہیجان جیسی کیفیت برپا ہونے لگتی۔ سفر کا آغاز ہوتا ہے تو کچھ ایڈجسٹمنٹ کے مسائل سفر کرنے والوں کےساتھ پڑھنے والوں کو بھی درپیش ہوتے کہ یہ اک نئی طرز سے لکھا گیا سفرِ عشق ہے جس میں شاعرانہ سے گل بوٹے جا بجا مہکتے اٹھلاتے ہیں۔ لیکن کچھ وقت بعد وہی لفظ آپ کی روح کو بھی مست کرنے لگتے ہیں کہ کئی بار ایسی کیفیات ہوئیں کہ کتاب کو بادلِ نخواستہ رکھنا پڑا کہ جب آپ بے بس ہوتے ہیں، سفر کو اپنی روح کے ساتھ بدن سمیت اختیار کرنے کے لیے کہ اس خبطی جہاں گرد روح نے اس ندیدی سی ہیجان امیز روح پر اپنے لفظوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی طلسم کیا۔ بظاہر بہت سادہ لفظ ہیں کہ اسلوب شاعرانہ و نثری دونوں کے بین بین ہے۔ کتاب کو ہاتھ میں لینے سے پہلے کچھ ایسی بازگشت تھی کہ شاعری اس میں زیادہ ہے لیکن جب اسے میں نے خود پر سہا تو مجھے تو ایسا نہیں لگا کیوں کہ اک منظروں کی ندیدی کے لیے جھرنوں کا بہنا، وادی کی ہریاول برف پوش پربتوں کے اپنی اور بلاتے گیت سب ہی شاعری و نثر سے ماوارا ہو جاتے ہیں۔
یہ سفر نہیں ہے یہ اک سحر ہے۔ اک مسلسل رم جھم روح پر اترتی پھوار ہے، جس میں قاری شرابور ہوتا چلا جاتا ہے۔ لکھنے والی روح نے تو اپنی بیتی بیان کی لیکن پڑھنے والی روح کو لگا اس کو بیان کر دیا ہے۔
اگر آپ کی روح اس درجہ پر کچھ پاگل سی ہے تو یہ سفرنامہ آپ کے لیے ہی ہے۔ لیکن اک گزارش کہ اسے یکمشت نہ پڑھیے۔ اس کے سادہ لفظوں کو محسوس کیجیے، جیسے چائے کافی کے گھونٹ گھونٹ کو محسوس کیا جاتا. ویسے ہی عشق دیوسائی کے سحر کو بوند بوند روح میں اترنے دیجیے۔
میں گنگ ہوں اور بے اختیاری کے قرار میں آنے کی منتظر ہوں، اک دن ان شاء اللہ…

(اس سفرنامہ کو علم و عرفان پبلیشرز، لاہور نے شائع کیا ہے.)

حُسن پرست دیو کی حسین راجدھانی، ”دیوسائی‘‘ – سمیرا انجم” ایک تبصرہ

تبصرے بند ہیں