انسانی جسم ایک ایسی کائنات کے مترادف ہے جس کے اندر متعدد چھوٹی چھوٹی دُنیائیں آباد ہیں۔ سبھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، ایک دوسرے کے بنا ادھوری اور سبھی آپس میں لازم و ملزوم بھی۔ جیسے بدن کی ساخت کو نشونما کے لیے صحت مند خوراک ضروری ہے، تو سانس لینے کے لیے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا، دل کو دھڑکنے کے لیے رگوں میں گرما گرم لہو اور پھر لہو کو بدن میں دوڑنے کے لیے پھر وہی خوراک اور آکسیجن۔۔۔
ہمارے بدن کی اس کائنات کا تمام تر کنٹرول ہمارے دماغ کے پاس ہے جب کہ ہمارا دماغ بذاتِ خود اپنے طور پر الگ سے ایک پوری کائنات بھی ہے۔ انسانی ذہن کی ساخت، سوچ کی اُڑان، آگہی کی پرواز اور پھر اس کی فکر و شعور کی بلندی۔۔۔
ذرا غور تو کرو کہ تم اپنی ذات میں پوری ایک کائنات ہی تو ہو۔ ہمارے ذہن میں آباد یہ دنیا ہر پل و ہر آن اپنے اردگرد کے تجربات سے گزرتی، مشاہدات سے سیکھتی اور افکار و نظریات سے سمجھتی ہوئی اپنی طاقت ہمیشہ ”مطالعہ‘‘ کے ذریعے حاصل کرتی ہے یعنی مطالعہ در مطالعہ انسانی ذہن کی خوراک ہے جس کے بنا ذہن کا زندہ اور صحت مند رہنا ممکن نہیں۔
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ