ہمیشہ کی طرح آج بھی سب بچے رات کے کھانے کے بعد بڑی امی جی کے گرد جمع ہو گئے۔ کورونا کی وبا اورلاک ڈاؤن نے جہاں بڑوں کی زندگی کو شدید دھچکا لگایا ہے وہاں بچے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ بچوں کو کورونا کے لاک ڈاؤن سے براہِ راست اثر قبول کرنا پڑا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے سکول بند ہیں اور پڑھائی سے لے کر دن کا کھانا اور ہر طرح کی تربیت و تفریح کا مرکز بھی صرف اور صرف گھر ہی ہے۔
بڑی امی جی، جو کہ تین بچوں یعنی ہانیہ، عمار اور حسن کی نانی امی ہیں اور زہرا کی دادی امی، روزانہ رات کے کھانے کے بعد بچوں کو اپنے بستر کے گرد جمع کر کے کام کی باتیں بتاتی ہیں۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہانیہ نے امی جی سے پوچھا کہ ہم کب تک یوں سکولوں سے چھٹیاں کرتے رہیں گے؟
امی جی نے جواب دیا: بیٹی اس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ کورونا ایک عالمی وبا ہے جو اِس وقت انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ہمارے سائنسدان دن رات ایک کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے اس بیماری کا علاج دریافت کیا جا سکے اور اس کی ویکسین بنائی جا سکے۔
امی جی یہ ویکسین کیا ہوتی ہے؟ عمار نے جلدی سے سوال کیا۔
بیٹا ویکسین سے مراد ایسی دوا ہے جو انسانی جسم میں داخل ہونے والے وائرس، بیکٹیریا یا دیگر جراثیموں کے خلاف تحفظ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جب ویکسین کو جسم میں داخل کیا جاتا ہے تو یہ جسم کی قوتِ مدافعت بڑھا کر جراثیم یا بیماری کے خلاف لڑتی ہے۔
لیکن امی جی ہم کب تک یوں اپنے گھروں میں قید رہیں گے؟ نہ ہم پارک جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی دوست سے ملنے اس کے گھر جا سکتے ہیں۔ اب کی بار حسن نے انتہائی بیزاری سے سوال کیا۔
امی جی بولیں: بیٹا یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہمیں کب تک یوں زندگی گزارنا پڑے گی لیکن ہمیں ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا۔ اُمید ہے کہ ہم جلد ہی اس خطرناک وبا سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے اور زندگی پہلے کی طرح روں دواں ہو جائے گی۔ آپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ کورونا سے بچنے کے لیے کیا کیا حفاظتی تدابیر اختیار کر رہے ہیں؟
میں بتاؤں؟ عمار جلدی سے بولا۔
جی بتائیں بیٹا، امی جی نے کہا۔
عمار: ہم سب بچے باقاعدگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ باہرسے بابا جو چیزیں لاتے ہیں، ہم ان چیزوں کو نہیں چُھوتے۔ کھانستے وقت منہ پر رومال یا ٹِشو رکھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنے دوستوں سے نہیں مل رہے تا کہ وہ اور ہم اس وبا سے بچے رہیں۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں اور ہم سب مل کر اور خوب ڈٹ کر کورونا کا مقابلہ کریں گے، ان شاء اللہ
امی جی: بہت خوب، ان شاء اللہ !بچو یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ سب کورونا سے ڈرنے کے بجائے اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ چلیں بچو آپ سب کے سونے کا وقت ہو رہا ہے۔
ارے امی جی ہم نے کون سا صبح سکول جانا ہے۔ پہلے آپ ہمیں جلدی سے کوئی کہانی سنائیں پھر ہی ہم سونے جائیں گے۔اب کی بار زہرا نے فرمائش کی۔
امی جی قدرے مسکراتے ہوئے بولیں: چلیں پیارے بچو، اگر یہ بات ہے تو آپ کو اپنے نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ سناتی ہوں۔یہ واقعہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی آج کل کی صورتِ حال سے متعلق ہے۔ اُمید ہے آپ کو اس واقعہ کے بعد احساس ہو گا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے کتنے مشکل حالات میں زندگی گزاری اور ہمیں بھی آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا ہے۔ تو بچو واقعہ کچھ یوں ہے کہ شہرِ مکہ کے قریب شعبِ ابی طالب کے نام سے ایک پہاڑ کی گھاٹی تھی جہاں ہمارے پیارے نبی کریمﷺاور آپﷺ کے خاندان بنو ہاشم کو پناہ لینا پڑی۔ قریشِ مکہ نے یہ ظالمانہ منصوبہ نبی کریم ﷺ کی اسلام کی دعوت کو دبانے کے لیے بنایا تا کہ آپﷺ راہِ راست سے ہٹ جائیں اور عرب کے لوگوں کو سچے دین، اسلام کی طرف راغب نہ کر سکیں۔ اس منصوبے کے تحت بنو ہاشم سے ہر طرح کے تعلقات توڑ لیے گئے۔ یہ اسلامی تاریخ کا پہلا سماجی و معاشرتی بائیکاٹ تھا جو تقریباً 3 سال جاری رہا۔ اس دوران حضورﷺ اور ان کے خاندان کو نہایت مشکلات کا سامنا رہا۔ ان حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر اوقات متاثرین کو بھوک مٹانے کے لیے درختوں کی جڑیں چبانا پڑتی تھیں اور پیٹ پر کھجور کے تنے یا چمڑا باندھنا پڑتا تھا۔ قریشِ مکہ کی اس سفاکی پر آسماں بھی رو دیا تھا۔ سرکارِ دوجہاںﷺ کے صبر اوراستقامت کے اس دورمیں محصورین کی زبوں حالی اور بے چار گی یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے بچے بھوک سے روتے بلکتے اور ان کے رونے اور چیخنے کی آوازیں شعبِ ابی طالب سے باہر بھی سنائی دیتیں جس سے آس پاس کے لوگ بے چین اور مضطرب ہو جاتے۔
اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے بھی آزمائش کا یہ سخت ترین دور بڑے صبر اور حوصلے سے گزارا۔ آپؓ نے راہِ حق میں آنے والی تمام تکلیفیں اورپریشانیاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خاطر خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ پیارے بچو آپ جانتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ مکہ کی مالدار اور خوشحال ترین خاتون تھیں لیکن اس مشکل وقت میں آپؓ اپنے رفیقِ زندگی یعنی ا للہ کے رسولﷺ کا بھی حوصلہ مزید بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھیں۔
تمام بچوں نے یک زبان ہو کر ہاں میں ہاں ملائی۔ ہانیہ نے پوچھا کہ اس مصیبت کا خاتمہ کیسے ہوا؟
امی جی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
پیارے بچو! مشکل وقت یوں ہی گزرتا رہا۔ آخر کار مظلوموں کی حد سے بڑھی ہوئی مظلومیت اور معصوم بچوں کی دِلوں کو ہلا دینے والی بلبلاہٹ اپنا رنگ لا کر رہی۔ قریش کے وہ لوگ جو بنو ہاشم اور بنو مطلب کے رشتے دارتھے، آپﷺ کے خاندان کی اس حالت پر خون کے آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے۔ کچھ رحم دل اور انسان دوست افراد اس ظالمانہ محاصرے کو ختم کرنے کے بارے میں اپنی اپنی جگہ سوچنے لگے اور یوں قریش کی مجلس میں اس موضوع پر بحث و مباحثہ شروع ہو گیا۔
عین اس وقت جب شعبِ ابی طالب سے باہر قریش کی مجلس میں اس فرسودہ حکم نامے کی دستاویز زیرِ بحث تھی، ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ پیارے رسولﷺ کو اللہ کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ بائیکاٹ کی دستاویز میں ظلم و ستم اور قطع رحمی کا جو مضمون تھا، اسے دیمک چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے ۔ حضورﷺ نے اس کا ذکر اپنے چچا ابو طالب سے کیا ۔ انہوں نے پوچھا : کیا آپﷺ کو اس کی خبر خداتعالیٰ نے دی ہے ؟
حضورﷺ نے فرمایا: جی ہاں!
حضرت ابو طالب نے اس بات کا ذکر اپنے بھائیوں کے سامنے کیا۔ اُنہوں نے پوچھا: آپ کا کیا خیال ہے؟
حضرت ابو طالب نے کہا: خدا کی قسم! محمدﷺ نے مجھ سے کبھی کوئی جھوٹ بات نہیں کہی۔
اس کے بعد حضرت ابو طالب نے حضورﷺ سے دریافت کیا اب کیا کرنا چاہیے؟
آپﷺ نے فرمایا: چچا جان!آپ عمدہ لبا س پہن کر قریش کے سرداروں کے پاس چلے جائیں اور ان کو یہ بات بتائیں۔
حضرت ابو طالب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس مجلس میں پہنچے جہاں قریش کے دانا و بینا اس دستاویز کے معاملے پر غور وخوض کر رہے تھے۔ اہلِ مجلس نے آپ کی آمد کی وجہ پوچھی۔ حضرت ابو طالب نے حاضرینِ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
میرے بھتیجے محمدﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، انہوں نے مجھے خبر دی کہ اس دستاویز میں، قطع رحمی سے متعلق تمہاری تمام تحریر دیمک چاٹ گئی ہے اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے۔ اب تم وہ صفحہ منگوا کر دیکھ لو ۔ اگر میرے بھتیجے کا بیان غلط نکلا تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا۔ پھر تمہیں اختیار ہے چاہے اسے قتل کر دو اور چاہے زندہ رہنے دو لیکن اگر اس کی بات سچ نکلی تو ہمارے ساتھ اس بدسلوکی سے باز آجاؤ۔
حضرت ابو طالب کی یہ بات سن کر حاضرینِ مجلس نے کہا کہ آپ نے انصاف کی بات کہی ہے۔ دستاویز منگوا کر دیکھی گئی۔ وہی بات سچی نکلی جس کی خبر دی گئی تھی۔ اس پر قریش کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ندامت اور شرم سے ان کی آنکھیں جھُک گئیں۔
یہ کہہ کر ابو طالب تو گھاٹی کی طرف لوٹ آئے۔ مجلس میں ابو جہل اور اس جیسے ضدی آدمیوں پر ملامت کی بوچھاڑ شروع ہو گئی اور اس محاصرے کے خاتمے کے حامی لوگ اسلحہ سے لیس ہو کر شعبِ ابی طالب کی طرف گئے اور محصورین سے کہا کہ وہ اپنے گھروں میں جا کر آباد ہو جائیں۔ اس طرح ظلم و ستم کا یہ تین سالہ طویل دور ختم ہوا۔
اس محاصرے کے ختم ہونے کے بعد جلد ہی حضورﷺ کے چچا ابو طالب اور زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ وفات پا گئے۔ان دونوں ہستیوں کی وفات حضورﷺ کو غمگین کر گئی اس لیے آپﷺ نے اِس سال کو عامُ الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد امی جی پھر مخاطب ہوئیں:
بچو آپ نے سنا کہ ہمارا یہ لاک ڈاؤن تو کچھ بھی نہیں۔ ہمیں اپنے گھروں میں دنیا بھر کی نعمتیں میسر ہیں، ہمارے تمام دنیا سے رابطے قائم ہیں، آرام اور فرصت کے دن میسر ہیں، کھانے پینے میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کے باوجود آپ سب کس قدر پریشان ہیں۔ ذرا اُن ہستیوں کے بارے میں سوچیں جنہوں نے شعبِ ابی طالب کے محاصرے میں تین سال کا طویل اور کٹھن عرصہ گزارا۔ اس لیے ہمیں اس وبا اور اس لاک ڈاؤن سے گھبرانا بالکل نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے خوب ہمت اور حوصلے کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اب رات کافی ہو گئی ہے، چلیں سب بچے سونے کی تیاری کریں، شب بخیر
سب بچوں نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا: بہت شکریہ اور شب بخیر امی جی
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع