صحت مند زندگی – ثاقب محمود بٹ

گھر کی گھنٹی بجی۔ احمد بھاگتا ہوا کھڑکی کے پاس پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ باہر ماسک پہنے اس کے ماموں کھڑے ہیں۔ احمد چلایا: ”عدیل ماموں آ گئے، عدیل ماموں آ گئے، ماما جلدی سے دروازہ کھولیں۔‘‘
احمد کی آواز سن کر اس کی بڑی بہن ایمل بھی دوڑی دوڑی دروازے کے پاس آ گئی۔ دونوں کی ماما نے دروازہ کھولا تو عدیل ماموں السلام علیکم کا نعرہ لگاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے، ساتھ ان کی بیٹی فاطمہ بھی تھی۔
ماموں جان نے بچوں کو کہا کہ پیارے بچو! ابھی قریب نہ آئیں، پہلے ہم ہاتھ منہ دھوئیں گے، پھر بیٹھ کر باتیں کریں گے۔
تھوڑی ہی دیر میں فاطمہ اور ماموں جان نے اچھی طرح ہاتھ منہ دھو لیا اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ اسی دوران احمد اور ایمل اپنی ماما سمیت ماموں جان کے پاس آ گئے۔ بچوں کی ماما کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں دو گلاسوں میں جوس پڑا تھا جو انہوں نے مہمانوں کے آگے بڑھا دیا۔
سلام دعا کے بعد ماموں جان نے بچوں سے پوچھا کہ آپ کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟
احمد بے زاری کے عالم میں بولا: ماموں جان، جانے کب کورونا سے جان چھوٹے گی؟ ہم تو نہ سکول جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی دوست سے مل سکتے ہیں۔
عدیل ماموں نے احمد کو لاڈ کرتے ہوئے کہا: بیٹا یہ ایک عالمی وبا ہے اور ہمیں اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔ کورونا سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی صحت اور صفائی کا بہت خیال رکھنا ہے۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ صفائی ہمارے ایمان کا بھی حصہ ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں صاف ستھرا رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ویسے بھی ایک صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کا حامل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں ۔
ایمل اور احمد کی ماما بولیں کہ بھائی جان، آپ بچوں سے باتیں کریں تب تک میں آپ سب کے لیے کھانا لگاتی ہوں۔
ماموں جان نے اثبات میں سر ہلایا اور بچوں سے مخاطب ہو کر بولے: پیارے بچو کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ صفائی کے سلسلے میں کن خاص باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
ایمل نے جلدی سے پوچھا: ماموں جان میں بتاؤں؟
ماموں جان نے مسکراتے ہوئے کہا: جی بیٹی آپ بتائیں۔
ایمل بولی: ہمیں چاہیے کہ صبح اٹھتے ہی غسل خانہ کا رُخ کریں اور ضروری حاجات سے فارغ ہوں۔ اس کے بعد ہاتھ دھوئیں، پھر ناک، کان اوراچھی طرح دانت صاف کریں۔ ماموں جان دانتوں کی صفائی کے لیے مسواک، ٹوتھ پیسٹ یا منجن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے نا؟
ماموں جان بولے: جی بیٹی، آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ دانت صاف کرنے کے بعد منہ دھوئیں اور اگر نماز کا وقت ہو تو وضو کریں۔ لیکن پیارے بچو ایک بات کا خیال رہے کہ واش بیسن پر پانی ضائع مت کریں۔ دن بھر وقفے وقفے سے اچھی طرح دونوں ہاتھوں کو بیس سیکنڈ تک دھوتے رہیں لیکن ہاتھ ملتے وقت نل ضروربند کر دیں۔
اب کی بار احمد بولا: ماموں جان ہمیں کیسے اندازہ ہو گا کہ بیس سیکنڈ گزر گئے ہیں؟ اب ہم بار بار گھڑی دیکھنے سے تو رہے۔
احمد کی بات سن کر ماموں جان مسکرانے لگے اور بولے: بیٹا آپ کا سوال بہت مناسب ہے۔ اس بارے میرا تجربہ ہے کہ اگر آپ سب ہاتھ دھوتے وقت ایک بار سورہ فاتحہ کی تلاوت کر لیں گے تو ایسے کم و بیش بیس سیکنڈ کا وقت بھی گزر جائے گا اور آپ کے نامہ اعمال میں ڈھیر ساری نیکیاں بھی اکٹھی ہو چکی ہوں گی۔
تینوں بچوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب یک زبان بولے: ہم آئندہ ایسا ہی کیا کریں گے۔
ماموں جان نے بات جاری رکھتے ہوئے کیا: اور ہاں بچو، سب سے اہم بات کہ غسل خانہ جاتے وقت عام جوتوں کی بجائے الگ مخصوص چپل یا سلیپر استعمال کریں۔ اپنے جسم کو صاف ستھرا رکھیں۔ کسی بھی بیماری کے حملہ سے بچنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں غسل باقائدگی سے کریں اورنہاتے ہوئے بھی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہ کریں کیوں کہ پانی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے، اس کی قدر کریں۔ جی ایمل بیٹی آپ مزید بھی کچھ بتائیں نا۔
ایمل کچھ سوچتے ہوئی بولی: ماموں جان ہمیں ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہننے چاہئیں۔ ہم دونوں بہن بھائی تو ہفتے میں ایک بار نیل کٹر کی مدد سے ہاتھ اور پاؤں کے ناخن بھی ضرور تراشتے ہیں۔
شاباش پیارے بچو! یہ تو آپ سب بہت اچھا کرتے ہیں کہ اپنی صحت کا اس قدر خیال رکھتے ہیں، مامون جان بولے۔
بچو آپ کو ایک اور مفید بات بتاؤں کہ صحت کے لیے ورزش اور سیر بھی بہت ضروری ہے۔ شروع ہی سے اگر انسان ورزش اورسیر کا عادی ہو تو آئندہ زندگی میں صحت کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اس لیے آپ سب لاک ڈاون کے دوران اپنی اِن چھٹیوں میں صبح کی سیر کو معمول بنائیں کیوں کہ صبح کی تازہ ہوا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ پھر جب آپ سکول جانے لگیں گے تو صبح کی سیر کے عادی ہو چکے ہوں گے اور بچو کوشش کریں کہ فجر کی نماز کے بعد سیر کے لیے باہر نکلیں۔
بالکل ٹھیک ماموں جان۔ (احمد اور ایمل یک زبان ہو کر بولے)
اس دوران فاطمہ بولی: بابا جان میں تو روزانہ ورزش بھی کرتی ہوں۔
شاباش پیاری بیٹی لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ ورزش ہمیشہ ہلکی پھلکی کریں کیوں کہ سخت ورزش آپ کو جلدی تھکا دے گی اور آپ دوبارہ ورزش کے قابل نہیں رہیں گے۔ (فاطمہ کے بابا اور ایمل اور احمد کے ماموں نے پیار سے سمجھایا)
اب کی بار احمد بولا: ماموں جان، سیر کے لیے کہاں جانا چاہیے؟
عدیل ماموں مسکراتے ہوئے بولے: بیٹے سیرکے لیے گھر کا لان زیادہ بہتر ہے ورنہ قریب کسی پارک یا باغ کا رُخ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں، مثلاً ماسک ضرور پہنیں اور سماجی دوری کا بھی خیال رکھیں۔ چھینکتے یا کھانستے ہوئے منہ کو بازو سے ڈھانپ لیں یا ٹشو کا استعمال کریں اور پھرٹشو کو کوڑے دان میں پھینک دیں۔ کوشش کریں گھاس پر ننگے پاؤں چہل قدمی کریں یا ممکن ہو تو ذرا تیز تیز پیدل چلیں۔ اس سے آپ کا جسم کھُل جائے گا اور آپ میں چُستی پیدا ہوگی۔ ساتھ ہی آپ کا دماغ بھی تروتازہ ہو گا۔ ہاں جب تھک جائیں تو قریبی بینچ یا کرسی وغیرہ پر بیٹھ جائیں۔ سیر کے دوران کیاریوں میں کھِلے پھولوں کی خوشبو سے لطف اندوز ضرور ہوں لیکن کسی صورت پھول نہ توڑیں۔اگر سیر کے لیے گھر سے باہر نکلے ہوں تو سیر کے دوران بھلے دوسرے لوگوں سے سلام دعا کریں لیکن زیادہ گپ شپ میں مشغول نہ ہوں اور اپنے دھیان میں مگن رہیں۔ سیر کے بعد سیدھے گھر لوٹیں اور تھوڑا آرام کر کے نہا لیں تاکہ پسینہ وغیرہ دُور ہو جائے. اور ہاں، نہانے کے بعد احتیاط سے صاف کپڑے پہنیں۔
ایمل پرجوش انداز میں بولی: ماموں جان آپ کا شکریہ، آپ نے تو ہمیں صحت کے بارے بہت مفید باتیں بتائی ہیں۔
اب کی بار فاطمہ بولی: بابا جان، کھانے پینے کے حوالے سے بھی ہماری رہنمائی کیجیے۔
جی بیٹی، اچھی صحت کے لیے کھانا پینا بہت ضروری ہے۔ اس لیے آپ سب کو دن میں کم از کم دو تین بار کھانا ضرور کھانا چاہیے۔ کھانا کھانے میں کچھ آداب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، جو انسان کے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ احمد آپ ہم سب کو کھانے کے کچھ آداب بتائیں گے؟
جی ماموں جان (احمد جلدی سے بولا): کھانا کھانے سے پہلے ہمیں اچھی طرح ہاتھ دھونے چاہئیں اور تولیے وغیرہ سے نہیں پونچھنا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ گھر کے دوسرے تمام افراد کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں۔ کھانا ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھائیں اوربسم اللہ پڑھ کر شروع کریں۔
بالکل ٹھیک بیٹا۔ اور اگر شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائیں تو کھانے کے دوران جب بھی یاد آئے، بسم اللہ پڑھ لیں۔ کھانا کھاتے وقت چند اور باتوں کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے، مثلاً کھانا آہستہ آہستہ خوب چبا چبا کر کھائیں اور جلدی نہ کریں۔ اگر کوئی کھانا آپ کو پسند نہ ہو تو بے شک نہ کھائیں لیکن منہ نہ بنائیں اورنہ اس کے بارے میں کوئی غلط بات کہیں۔ ویسے بچپن ہی سے ہر چیز کھانے کی عادت اپنائیں اور کسی چیز سے بھی نفرت مت کریں۔ کھانا ہمیشہ چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر اپنے قریب سے کھائیں۔ ضرورت سے زیادہ نہ کھائیں بلکہ بہتر ہے کچھ بھوک رکھ کر کھانا کھائیں۔کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمدللہ کہیں۔ کھانے کے بعد کلی کر لیں، ہاتھ دھوئیں اور تولیے سے پونچھ لیں۔ ماموں جان نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
پیارے بچو! اِس سب کے ساتھ ساتھ اچھی صحت کے لیے مناسب آرام اور اچھی نیند کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دن کام کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی ہے چنانچہ رات کو آرام کرنے کے لیے جلدی سو جانا چاہیے۔ جو لوگ دیر تک جاگتے ہیں اور کم سوتے ہیں وہ دن بھر اپنے آپ کو سُست اور تھکا تھکا محسوس کرتے ہیں۔ کم سونے سے قوتِ مدافعت بھی متاثر ہوتی ہے۔ کورونا سے لڑنے کے لیے آپ سب کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ رات کا کھانا کھانے کے ڈیڑھ دو گھنٹے بعد آپ سب سو جائیں۔ خیال رہے، جاگنے کی طرح سوتے وقت بھی اللہ کو یاد کر کے سونا چاہیے اورہمیشہ کوشش کریں کہ زیادہ تر دائیں کروٹ سوئیں۔
ابھی یہ باتیں جاری تھیں کہ احمد اور ایمل کی ماما کی آواز آئی، ”کھانا لگ گیا ہے، آپ سب ہاتھ دھو کرکھانے کی میز پر آ جائیں۔‘‘ سب بچوں نے عدیل ماموں کا شکریہ ادا کیا اور کھانے کے لیے اٹھ گئے۔