دل آزاری – سمیرا انجم

موسیٰ اور عثمان سکول میں ایک ہی جماعت میں پڑھتے ہیں۔ دونوں کی دوستی بھی گہری ہے۔ ایک ہی محلے میں رہتے ہیں تو دونوں گھرانوں میں بھی اچھے تعلقات ہیں۔پڑھائی میں بھی دونوں جماعت کے نمایاں طلبا میں شمارہوتے ہیں۔ آج جب وہ سکول سے واپس لوٹے تو موسیٰ کے داداجی، جو کہیں سے واپس آرہے تھے، انہوں نے دونوں کو کسی بات پر بحث کرتے دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج جماعت میں عثمان نے باقی بچوں کے ساتھ مل کر سلیم کا بہت مذاق اڑایا۔ وجہ سلیم کی غربت تھی کہ وہ آج کل کے بچوں کی طرح کسی بھی جدید سہولت سے واقف نہیں۔ نہ اس کے پاس اچھے مہنگے کلرز اور بیگز ہیں اور نہ ہی کوئی لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ وغیرہ۔
اسی بات پر موسیٰ کی عثمان سے بحث ہورہی تھی کہ تم نے سلیم کی دل آزاری کی ہے۔ اُس کا دل توڑا ہے اور یہ بات اللہ کو بالکل بھی پسند نہیں۔ یہ سب ہمارے نبیﷺ کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ موسیٰ کو چوں کہ اس کے دادا جی بہت سی اچھی اچھی باتیں بتایا کرتے تھے۔ اللہ کی، پیارے نبی ﷺ کی، تو اُسے بہت سے واقعات بھی یاد تھے اور وہ کوشش کرتا کہ ان پر عمل بھی کرے تاکہ پیارے نبیﷺ خوش ہوں اور پھر اللہ بھی خوش ہو۔
اس وقت تو موسیٰ کے دادا جی نے دونوں کو گھر جانے کا کہا اور شام کو اپنے پاس آنے کا حکم دیا۔ شام کو تمام کاموں سے فارغ ہو کر عثمان، موسیٰ کے گھر چلا گیا اور پھر دونوں دادا جی کے کمرے میں آن موجود ہوئے۔ سلام کا جواب دینے کے بعد داداجی نے دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر اُن کی طرف متوجہ ہوئے:
ہاں تو عثمان میاں آج آپ سے اپنے ایک ہم جماعت کا دل ٹوٹا ہے، آپ کے ہاتھوں اُس کی دل آزاری ہوگئی؟
اب عثمان کچھ شرمندہ سا لگ رہا تھا، تو ہلکی سی آواز میں جواب دیا: جی دادا جی۔
دادا جی کچھ دیر عثمان کے جھکے سر کو دیکھتے رہے، پھر پیار سے اسے پاس بٹھا کر کہا: دیکھو بیٹا ساتھ پڑھنے والے سب آپس میں دوست ہی تو ہوتے ہیں نا اور دوستی کا رشتہ بہت پیارا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں ہمیں بہت سی باتوں کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ ہماری کسی بات سے دوست کا دل نہ دُکھے۔ اُس کی کوئی بات ناگوار بھی لگے تو ہم اس پر خاموش رہیں۔ اب یہاں تو آپ کے ایک ایسے دوست کی بات ہے جو آپ بھی نہیں جانتے کہ کِس مشکل سے سکول پڑھنے آتا ہوگا۔ کیا آپ کو اس کے گھرانے کے بارے میں کچھ معلوم بھی ہے؟
یہ سوال عثمان اور موسیٰ دونوں سے ہی دادا جی نے کیا تھا۔
دونوں کا نفی میں جواب سن کر دادا جی اُن کو بتانے لگے کہ وہ سلیم کو جانتے ہیں کیوں کہ سلیم پچھلی گلی میں ہی رہتا ہے اور اکثر مسجد میں نماز پڑھنے آجاتا ہے۔ سلیم سکول کے بعد اپنی بیوہ والدہ کا ہاتھ بٹاتا ہے جو گھر میں ہی کھانے پینے کی اشیاء بنا کر بیچتی ہیں۔ سلیم کے والد کچھ سال قبل ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ سلیم کے ابا کو اپنے بیٹے کو پڑھانے کا بہت شوق تھا اور سلیم خود بھی پڑھائی میں بہت محنتی ہے۔ اب وہ اپنی والدہ کی مدد بھی کرتا ہے اور سکول بھی جاتا ہے ۔اُس کی دو چھوٹی بہنیں بھی سکول میں پڑھتی ہیں۔ گھر اور سکول کے تمام اخراجات پورے کرنے کے لیے سلیم کی والدہ کو کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں اور نہ ہی سلیم اپنی اس مشکل کا کسی سے تذکرہ کرتا ہے کیوں کہ اسے پسند نہیں کہ وہ کسی کے سامنے شرمندہ ہو یا کوئی اس پر ترس کھائے۔یہی وجہ ہے کہ وہ سکول میں ہم جماعت بچوں کے مذاق پر چپ رہتا ہے۔
یہ باتیں دادا جی کو اس لیے معلوم ہوئیں کہ مسجد میں سلیم کو دیکھ کر دادا جی اس کے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے۔ یوں دادا جی کے ساتھ سلیم کی دوستی ہوگئی۔ اب جب بھی سلیم کو کوئی مشکل پیش آتی تو وہ دادا جی سے بطور بزرگ مشورہ کر لیتا ہے۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ بہت سمجھ دار ہوگیا تھا۔
دادا جی یہ سب باتیں اُن دونوں کو بتانے کے بعد گویا ہوئے: پیارے بچو! یہ سب اس لیے آپ کو بتایا تاکہ آپ اپنے دوست کو سمجھ سکیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہمیں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تعلیم فرمائی ہے اور اگر وہ آپ کا دوست ہو تو پھر تو دوستی کا حق یہ ہے کہ آپ اُس کو اپنے کسی بھی عمل سے تکلیف نہ دیں۔ اُس کی غربت کا مزاق نہ اڑائیں۔ اگر آپ کو اللہ نے اچھا پہننے اور اچھا کھانے پینے کی نعمت دی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو کمتر سمجھیں، جو آپ جیسے نہیں ہیں۔ آپ کو تو چاہیے کہ اپنے اس دوست کی مدد کریں۔ مدد کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں،تحفہ تحائف کی شکل میں یا کبھی اپنے اچھے بول کے ذریعے۔
عثمان دادا جی کی یہ سب باتیں سن کر اور زیادہ شرمندہ ہوگیا اور دادا جی سے وعدہ کیا کہ وہ کل ہی سکول جا کر تمام طلبا کے سامنے سلیم سے معافی مانگے گا اور آئندہ کسی کے ساتھ بُرا برتاؤ نہیں کرے گا۔ کسی کی غربت کا مذاق نہیں اڑائے گا۔ اگر اُس کے سامنے دوسرا کوئی ایسا کرے گا تو وہ اُسے بھی اچھے انداز سے سمجھائے گا۔
عثمان کی یہ باتیں سن کر داداجی کا چہرہ کھِل اٹھا اور وہ مسکراتے ہوئے بولے: شاباش میرے بچو! یہی تو اچھے بچوں کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ جلد بات سمجھ جاتے ہیں اور اُس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
پھردادا جی نے دونوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اُن کو جانے کی اجازت دے دی۔
پیارے بچو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ہر ممکن طریقے سے کسی کی دل آزاری سے بچیں اور اللہ کے نیک اور پیارے بندے بن جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں