عمار مسعود کے کالم سے محترمہ صدیقہ آپا کے سانحہء ارتحال کی خبر ملی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک پیار کرنے والی ہستی کے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے المناک احساس نے بہت دن گھیرے رکھا۔ تبھی جناب انور مسعود کا یہ شعر نظر سے گزرا اور احساسِ زیاں کو سوا کر گیا:
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپردِ خاک کیا
مشیئتِ ایزدی کے سامنے سر جھکاتے ہوئے خاک میں تو سب ذی روحوں کو جانا ہی ہے لیکن سونا کہلانے والی اس عورت کی خوش نصیبی میں، اس کے خوش اخلاق اور بلند مرتبہ ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے جس کا شوہر نامدار، اس کا رفیقِ زندگی اس کے بارے میں ایسے کلمات کہے۔ اللہ اللہ۔۔۔ رب العزت صدیقہ آپا کو غریقِ رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے، آمین
میں صدیقہ آپا سے صرف ایک با ر ملی اور اسی واحد ملاقات میں ان کا پیکردل پر نقش ہو گیا۔ قریباً پانچ برس قبل ایک مشاعرے میں پہلی بار ان سے بالمشافہ ملنے کا موقع ملا۔ میں شعرا کی گیلری میں خاموش ایک طرف کو بیٹھی تھی جب وہ تشریف لائیں۔ کیا شاعرات، کیا نامور شعراء حضرات سب اُٹھ اُٹھ کر انہیں سلام پیش کرنے کو آئے۔ انہوں نے کمال شفقت سے سب کے سلام کا جواب اور دعائیں دیں اور کم نصیبی دیکھیے کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ محترم ہستی کون ہیں؟ بالآخر ہمت کر کے پاس گئی سلام پیش کیا۔۔۔ تو کمال محبت سے اپنے پاس جگہ دی۔ اپنے بارے میں بتایا۔ میرا تعارف چاہا۔ میں نے کہا کہ مجھے اپنے میزبانوں میں سے سمجھیے، اُردوادب کی طالبہ ہوں اور ڈاکٹر نجیبہ عارف کی شاگرد ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے نام پر خوش ہوئیں اور کہنے لگیں وہ تو ہمارے بچوں کی طرح ہیں سو تم بھی۔ اور مجھے اپنی خوش نصیبی پر رشک محسوس ہوا۔
مشاعرے کی کارروائی کا آغاز ہونے لگا تو وہ میرا ہاتھ تھامے پنڈال میں تشریف لائیں اور دھیمے اور دل موہ لینے والے انداز میں گفتگو کرتی رہیں تاوقتیکہ شمعِ مشاعرہ روشن ہو گئی۔ جنابِ انور مسعود نے مشاعرے کی صدارت کی اور آخر میں اپنا کلام سنانے سے پہلے انہو ں نے آپاکی توصیف میں بھی کچھ کلمات کہے جو مجھ جیسے نو آموزوں کے لیے ان کی ذات سے ایک خوبصورت تعارف تھا۔
پھر عشائیے میں ان کی صحبت میسر آئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اکثر بیویاں شاعر شوہروں سے ناخوش رہتی ہیں تو اس ضمن میں اُن کا تجربہ کیا ہے؟ اس حوالے سے اپنے جواب میں انہوں نے اس کی نفی کی۔ اُن کا خیال تھا کہ انہوں نے شعر و سخن کی فضا میں ایک بہترین اور بہت خوش گوار زندگی گزاری ہے۔ تاہم اس کا سہرا انہوں نے جنابِ انور مسعود کے سر باندھا۔ ان کا خیال تھا کہ برائی شاعر ہونے میں نہیں ہوتی بلکہ کمی یا کجی بحیثیت انسان، کسی فرد میں ہوتی ہے جو آس پاس کے لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے شوہر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے اتنی عزت دی کہ شاید ہی کوئی مرد کسی عورت کو دیتا ہو۔ یہی عزت، بھروسہ اور مان ان کے نزدیک ان کا حاصلِ حیات تھا۔۔۔ میں نے بچوں کے بارے میں پوچھا تو بہت محبت لیکن اختصار سے جواب دیا کہ پانچوں اپنے گھروں میں خوش ہیں، اللہ کا کرم ہے ان پر اور شکر ہے کہ رزقِ حلال کھاتے ہیں۔۔۔ میں نے سوچا جس ماں کے لیے رزقِ حلال اتنا اہم ہے کہ دیگر کسی بات کی بجائے اس کا تذکرہ ان کی زبان پر آ گیا تو اس معاملے میں ان کی تاکید کتنی سخت ہو گی۔
وہ اس نشست میں بے تکلفی سے مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کرتی رہیں جس میں علم و ادب کے علاوہ حالاتِ حاضرہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے انور مسعود صاحب کی مرتب کردہ ایک تازہ کتاب (صدیقہ انور کے نام – خطوط) کا تذکرہ بھی کیا جس میں ان کے نجی خطوط کو جمع کیا گیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا اور کچھ ضمنی سوالات کیے جس پر انہوں نے کہا کہ میرے پاس اس حیات کی یہ ایک پونجی بچی تھی، سو وہ بھی محفوظ کر دی، یوں پڑھنے والوں کی ہوئی۔ اور میں نے اسی وقت جی میں ٹھان لی کہ اسے ضرور پڑھوں گی۔
دل نہ چاہتا تھا کہ اس محفل کا اختتا م ہو، پر ہو کر رہا۔ وہ اپنے نامور شوہر کے ہم رکاب محفل سے الوداع ہو گئیں لیکن ان کی سادہ طبیعت، دھیما سا سلجھا ہوا مگر ُپر تمکنت اور مسحور کرنے والا انداز۔۔۔ شیریں گفتگو اور عالمانہ طرزِ ادا، ایک خوشبو کی طرح میرے ساتھ رہ گیا۔۔۔ اچھے لوگ کسی کو اپنی لمحہ بھر کی رفاقت سے ہی وہ سب کچھ عطا کر جاتے ہیں جس کا نعم البدل مادی حوالے سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔ جاتے ہوئے کہنے لگیں تم تو نجیبہ سے ملو گی تومیرا سلام کہنا۔۔۔ یہ سلام جیسے ایک امانت تھا اور جب تک یہ امانت حق دار تک نہ پہنچی میرا دل حالتِ قیام میں رہا۔
پھر ایک دن وہ تھا جب میری متلاشی نظروں کو ایک دکان میں کتابوں کی شیلفوں میں لدی ڈھیروں کتب کے بیچ اس کتاب کی جھلک نظر آئی جس کا تذکرہ آپا کی زبان سے سنا تھا۔ وفورِ جذبات سے مغلوب ہو کر ”صدیقہ انور کے نام (خطوط)‘‘ فوراً خریدی اور گھر آتے آتے راستے میں ہی پڑھنی شروع کر دی۔۔۔ یہ کتاب تھی یا ایک آئینہ جس میں اُ ن کی شبیہہ اوربھی نکھرتی گئی۔ ان کی حیات اور صفات کے بہت سے گوشے پردہء اخفا سے نکل کر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئے اور ان کا مقام میری نظر میں مزید ارفع ہو گیا۔۔۔ تاہم ایک تشنگی سی تھی کہ آپا کے جواب ہوتے تو ان کی تحریر سے بھی آشنائی ہو جاتی۔ لہٰذا کتاب ختم کی تو اُن سے بات کرنے کی خواہش فزوں تر تھی۔۔۔ بصد کوشش ان کا نمبر حاصل کیا اور بالآخرآپا سے بات ہو گئی۔۔۔
صدیقہ آپا مجھے با آسانی پہچان گئیں اور کتاب پڑھنے کا سن کر خوش ہوئیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ آپ کا ایک بھی جواب اس میں موجود نہیں تو ہنس کر بولیں میں نےتو جہاں تک ہو سکا اپنے حصے کے سنبھال کررکھے باقی ذمہ داری تو میری نہیں تھی۔۔۔ خیر میرا حال احوال پوچھا۔ جب میں نے ان کی مصروفیات جاننا چاہیں تو کہنے لگیں قرآن پاک کا درس وتفسیر میری سب سے بڑی تسکین اور مصروفیت ہے۔ پھر مجھے آنےکی دعوت دی کہ ”تم بھی آؤ ناں۔ کچھ وقت دین کے لیے بھی نکالو۔۔۔ ایسے انداز میں قرآن سمجھاؤں گی کہ تمہارے لیے بہت سہل ہو جائے گا۔‘‘ میں نے کوشش کرنے کا کہا تو کہنے لگیں وقت نکالنا پڑتا ہے زندگی خود سے مہلت نہیں دیتی۔ میں نے کہا ”آپ درست فرما رہی ہیں۔۔۔‘‘ پھر ساتھ ہی میں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ فارسی بھی سیکھنا چاہتی ہوں تو بولیں ”یہ کون سی بڑی بات ہے۔۔۔ وہ بھی سکھا دوں تم آؤ تو سہی۔۔۔‘‘ ایسی ہی کئی خوش گوار باتوں سے سجی یہ گفتگو بھی اختتام پذیر ہوئی لیکن میں زندگی سے وہ مہلت نہ چرا سکی کہ ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کی نوبت آتی اور بحیثیت استاد ان کی رہنمائی سے میں ناچیز بھی بہرہ مند ہو پاتی۔۔۔ صد حیف۔
علم اور نورِ ہدایت بانٹتے بانٹتے صدیقہ آپا اپنی حیات کی جدوجہد کی تکمیل کر کے اچانک اس دنیا کو چھوڑ گئیں، شاید اس طورکہ جس طرح کی موت کی انسان تمنا کرتا ہے اورجیسے میں بھی اپنے لیے مانگا کرتی ہوں۔۔۔ پر اب میں سوچ رہی ہوں کہ ایسی عزت والی بے محتاجی کی موت پانے کے لیے تو بہت بڑے عملوں کی ضرورت ہے تو میں ایسے اعمال کہاں سے لاؤں۔۔۔ کس طرح لاؤں۔۔۔
لیکن یہاں بھی ان کا بیان کیا ہوا ایک شعر یاد آ رہا ہے جس میں میرے لیے بھی رہنمائی چھپی ہے:
در طلب کوش و مدہ دامنِ اُمید زدست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے
[ترجمہ: تو طلب اور جستجو جاری رکھ اور اُمید کا دامن نہ چھوڑ۔ ممکن ہے کہ یہ دولت کبھی تجھے سرِ راہ مل جائے۔ اقبال] سبحان اللہ۔
ہمارے لیے ان کا جانا بہت بڑے دکھ کی گھڑی ہے اور جب سے یہ خبر ملی ہے دل انہی کو سوچے جا رہا ہے لیکن ان کے بعد ان کے اہلِ خانہ پر جو گزر رہی ہو گی وہ یقیناً مہا کٹھن ہے۔۔۔ اللہ پاک سب کو صبر عطا فرمائے۔۔۔ صبرِ جمیل عطا فرمائے۔۔۔ کہ یہ بھی اس کے فضل سے عطا ہوتا ہے، ورنہ دل کو قرار نہیں آتا۔
صدیقہ آپا کے لیے جنابِ انور مسعود کی ایک نظم کے بند پر ہی اختتام کرنا چاہوں گی:
قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے
دیارِ دل میں بہت احترام ہے تیرا
ریاضِ شعر میں قائم ہے آبرو تیری
توقعات کے گھر میں مقام ہے تیرا