Social history has raised many new approaches to analyze the oppression and inequalities that woman have been facing for a very long time in the society. Ideology of feminism was introduced actually to ensure the social, political, economic, religious, educational and professional parity of genders, similarly the study of the history of woman’s social status is in fact, meant to accept the ferocious behavior of men towards woman throughout ages. It can be helpful to make a man understand that woman should be given the choice for living her life as she wants…
معاشرے میں عورت کے ساتھ عدم مساوات اور جبر کا تجزیہ کرنے کے لیے سماجی تاریخ نے بہت سے نئے نظریات اور نقاط ہائے نظریے دیئے ہیں۔ تانیثیت کی آئیڈیالوجی دراصل سماجی، سیاسی، معاشی، مذہبی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ سطح پر صنفی مساوات قائم کرنے کے لیے متعارف ہوئی۔ اسی طرح عورت کی معاشرتی حیثیت کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کا مقصد اصل میں اس سخت گیر رویے کو تسلیم کرنا ہے جو صدیوں سے مردوں نے عورتوں کے ساتھ روا رکھا اور مرد کو اس طرف لانا ہے کہ وہ عورت کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا راستہ دے۔
ارتقائے حیات کی کہانی میں مرد اور عورت دونوں کا ذکر ایک دوسرے کے بغیر ناممکن ہے۔ بنی نوع انسان کی بقا کے لیے دونوں کا وجود ہی ناگزیر ہے۔ اس حقیقت سے مرد اور عورت دونوں آگاہ بھی ہیں لیکن اس آگہی کے باوجود مرد کی طرف سے عورت کے وجود کو دبانے اور اس کا استحصال کرنے کی ایک طویل داستان بھی انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ دنیا کی بڑی تہذیبوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ عورت کی معاشرتی حیثیت ہمیشہ سے مرد کے مقابلے میں کمتر رہی ہے۔ انسانی معاشرے کے ارتقا اور انسانی تہذیب کی نشوونما میں عورت نے جو کردار ادا کیا ہے وہ مرد کے کردار سے بڑھ کر ہی ہے، اس سے کم نہیں ہے۔ لیکن عورت کے اس کردار کا کبھی اعتراف نہیں کیا گیا یہاں تک کہ اس کے انسان ہونے کی حیثیت کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔
ایک جرمن خاتون نے کہا تھا کہ:
”میری تاریخ کی کتابیں جھوٹ بولتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ میرا وجود نہیں تھا۔‘‘
تاریخ میں عورت کا وجود تو ہے مگر وہ وجود ہے جو مرد نے تشکیل دیا ہے کیوں کہ ہماری پوری تاریخ مردوں کی تاریخ ہے عورتوں کی نہیں لیکن ہم غور کریں تو تحریری تاریخ تو مردوں کی ہے مگر جیسے جیسے قدیم تہذیبوں کے آثار دریافت ہو رہے ہیں ویسے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ معاشرے میں مرد کی موجودہ حیثیت ہمیشہ سے نہیں تھی. مرد کی برتری آہستہ آہستہ تاریخی عمل کے ساتھ قائم ہوئی ہے۔ ابتداء میں چوں کہ انسانی نسل کو آگے بڑھانے کی ضامن عورت تھی اس لیے مرد کے مقابلے میں اسے زیادہ اہمیت حاصل تھی اور چوں کہ زراعت عورت کی ایجاد تھی اس لیے زرعی معاشرے میں عورت زرخیزی کی علامت بن گئی۔ گورڈن چائلڈ لکھتے ہیں کہ:
”اور یہ عورت ہی کا کارنامہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے جس جانور کو سدھایا وہ مرد تھا۔‘‘
کیوں کہ جب مرد کو چھت ملی تو اس کا ایک ٹھکانہ ہوا۔ جب وہ شکار کی مہم سے بھوکا پیاسا تھکا ہارا واپس آتا تو اس چھت کے نیچے آرام ملتا۔ یہ سب عورت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس لیے عورت کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ابتدائی معاشرے میں مادرانہ معاشرہ قائم رہا اور عورتیں قبیلوں کی سردار تھیں اور ان ہی کے نام سے نسل چلتی رہی اور اس وقت مافوق الفطرت قوتوں کا تصور بھی زنانا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آلات پیداوار کی تبدیلی سے زیادہ پیداوار حاصل ہونے لگی۔ اشتراکی معاشرہ جاگیردانہ سماج میں بدلا تو عورت کی جگہ مرد نے لے لی جس کے زیرِ اثر عورت آزاد اور کھلی فضا سے قید خانوں میں دھکیلی جانے لگی۔ عورت کو مرد سے کمزور اور کم عقل سمجھا جانے لگا۔ عورتوں کے لیے ایک یہودی مربی کا کہنا تھا کہ:
”عورت کو خاموشی سے خدمت گزاری سیکھنا چاہیے۔ اسے نہ تو پڑھانا چاہیے اور نہ آدمی پر حکم چلانا چاہیے۔ اس کی مغفرت اس میں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرے۔‘‘
لہٰذا عورت کو برائی، تباہی اور خرابی کی جڑ بنا دیا گیا اور عورت نفسیاتی طور پر اپنی ذات سے شرمندہ ہونے لگی اور وہ سوچتی کہ وہ صرف خرابی اور برائی کی جڑ ہیں۔ ٹرتولین نے کہا ہے کہ:
”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم برائی کا دروازہ ہو۔ تم آسانی سے مرد کو جو خدا کا مظہر ہے اسے تباہ کر سکتی ہو. مرد ہر گناہ سے پاک اور عورت ہی اسے گناہ کے راستے پر ڈالتی ہے۔ یعنی شیطان عورت کو ورغلاتا ہے اور عورت مرد کو ورغلاتی ہے تو مختلف مذاہب کے مطابق پہلاََ شخص آدم اسے جنت سے نکلنا پڑا تو کیا اس کی وجہ عورت بنی؟ کیوں کہ یہ کہیں نہیں آیا کہ شیطان نے حوا کو گمراہ کیا اور حوا نے آدم کو۔ اور نہ ہی قرآن حوا کو حقیقی ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور نہ ہی برالذمہ قراردیتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ:
”اس نے دونوں کو بہکا دیا‘‘، سورۃالاعراف۔
اس آیت سے ہمارا ایک مفہوم یہ بھی واضح ہو جاتا ہےکہ جہاں ورغلانے کا ذکر ہے وہاں جمع کا صیغہ ہے۔ ترجمہ؛
”سو منظور کر لیا ان کی درخواست کو آپ کے رب نے اس وجہ سے کہ میں کسی شخص کے کام کو تم سے اکارت نہیں کرتا؛ خواہ مرد ہو یا عورت تم آپس میں ایک دوسرے کے جزو ہو‘‘ سورۃ آل عمران
اسلام میں یہ کہیں نہیں آیا کہ عورتوں کو مردوں کے لیے پیدا کیا گیا بلکہ اسلام کہتا ہے کہ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
ترجمہ؛ ”تم ان کے لیے لباس ہو اور وہ تمہارے لیے لباس ہیں‘‘ سورۃ البقرہ
تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ عورت کی حیثیت کوئی نہیں وہ صرف جہنمی ہے اور عورت کے مقابلے میں مرد کی حیثیت زیادہ ہے۔ جب کہ اسلام اسے باعزت مقام دیتا ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کے درمیان مساوات کا پیغام دیا اور یہ کہا گیا کہ مرد و عورت ہونا وجہ فضیلت نہیں بلکہ ان کا عمل ہی خدا کے نزدیک ایک افضل ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں، تہذیب میں اور ہر زمانے میں عورت اہم حیثیت کے حامل رہی ہے چاہے اسے عزت کے قابل سمجھا جائے یا شر کا منبع سمجھا اور دنیا میں عورت مختلف مذاہب اور خطوں میں مختلف روپ دھارتی رہی ہے۔ لیکن اسلام کائنات کا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو عزت دی۔ مرد اور عورت کے درمیان فرق کو بطور کیٹگری بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کو بطور سماجی تعلق کے نہیں دیکھا جاتا۔ مرد اساس معاشرہ میں نہ صرف یہ کہ عورتوں کو زندگی میں مواقع کم فراہم کیے جاتے ہیں بلکہ زندگی کی ارتقائی پیش قدمیوں میں عورت کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے یا اس کی کوششوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ لیکن بعد میں عورت نے بطور انسان ہونے کا حق مانگا اور اس نے آواز اٹھائی۔ حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لیے نسائی تحریکوں کا آغاز اٹھارہویں صدی کے بعد ہوا۔ تحریک نسواںِ عورت کی حیثیت و اہمیت؛ مساوی حقوق آزادی رائے اور مکمل انسان تسلیم کرنے کے نقطہ نظر کا احاطہ کرتی ہے لیکن گزشتہ صدی میں تلخ حقیقت ہر عہد میں عورت پر استحصالی قوتیں مذہبی؛ ریاستی؛ اور خاندانی سطح پر حاوی رہی ہیں۔ تانیثیت یا حقوقِ نسواں کی آواز مغربی اور مشرقی معاشرہ کے ہر طبقہ سے بلند ہوئی۔ فیمینیزم کو آئیڈیالوجی اور سماجی تحریک مانا گیا۔ انیس ہارون لکھتے ہیں کہ:
”خواتین پر ظلم زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا یا ان کے حقوق کی بات کرنا فیمینیزم ہے۔‘‘
تانیثیت کی تحریک فرانس میں بھر پور انداز میں ابھری. فرانسیسی انقلاب نے یورپ کی تاریخ کو بدل ڈالا اور فکر کی نئی راہیں کھول دی۔ نیشنل ازم؛ سیکولرازم؛ سوشلزم اور فیمینیزم انقلاب کی پیداوار تھے اور اس انقلاب کے دوران عورت نے اپنے حقوق کی آواز بلند کی۔ پدرسری اور قدامت پرستی کو چیلنج کیا اور انقلاب میں بھر پور حصہ لیا اور ان عورتوں کا تعلق امراء کے طبقے سے نہیں تھا بلکہ یہ متوسط طبقے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔
فیمینیزم دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے معاشرے؛ مزاج اور ضروریات کے مطابق شکل اختیار کر تا ہے جس میں خود عورتوں کی اپنی تعلیم؛ شعور؛ ماحول اور ضروریات کا دخل ہو اور اس دوران طبقہ نسواں نے ادب کے شعبے میں تجزیے کرنے شروع کر دیے اور اس کو مذید زورآور بنانے کے لیے تمام طبقہ نسواں کے دانشور ادب کے مسلحین؛ فلسفہ اور نفسیات کے تمام تانیثیتی مفکرین شامل ہیں جن میں ژولیاکرستیوا؛ ایلی؛ زوائے گوئٹے اور سیمون دی بوار خاص ہیں۔ اور سیمون نے اس تحریک کو علمی اور تنقیدی بلندیوں پر پہنچا دیا اور ورجینا وولف؛ ڈورتھی پارکر نے اپنی تصانیف کے ذریعے ایک مضبوط اور احتجاج سے بھر پور آواز بلند کی۔ قاضی افضال حسین کے مطابق:
”ادب کا تانیثیتی مطالعہ احتجاج یا عوامی نعرے قلق کرنے کے بجائے تحلیل؛ تجزیہ کا فن ہے۔ جہاں تانیثیت کی سماجی تحریکات پدری نظام کے بنیادی تصورات کو رد کرتی اور ایک نئے معاشرتی معاشی مادری توازن کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
اُردو ادب میں انیسویں صدی کے بعد سے ہی عورتوں کی سماجی حیثیت اور ان کے مسائل کو موضوع بنایا گیا اور سب سے پہلے مرد لکھاریوں نے عورت کے مسائل پر قلم اٹھایا جن میں ڈپٹی نذیر احمد؛ راشدالخیری؛ مرزا ہادی رسوا؛ پریم چنداور راجندر سنگھ بیدی وغیرہ کے نام شامل ہیں اس کے بعد رشید ۃالنساء بیگم؛ محمدی بیگلم اور اکبری بیگم کی تخلیقات تانیثیتی تاثر کے ساتھ منظرِعام پر آئیں۔ اکبری بیگم نے عفت نسواں؛ شعلہ پنہاں؛ گودڑکا لال لکھ کر خواتین کے حقوق؛ مسائل کی بخوبی ترجمانی کی۔
بیسویں صدی کے شروع میں جو خواتین تانیثیت کی علمبردار بن کر ابھریں ان میں ڈاکٹر رشید جہاں کا نام سر فہرست ہے۔ ڈاکٹر رشید جہاں کے رجحانات کی نمائندگی عصمت چغتائی کے ہاں بھرپور اور بے باک انداز میں ملتی ہے۔ عصمت چغتائی نے مردانہ سماج میں جرآت مندانہ اور بے باک رویہ اختیار کیا اور مرد کی اجارہ داری کے خلاف آواز بلند کی۔ گھر کی چار دیواری میں قید ازدواجی حق سے محرومی؛ متوسط اور نچلے طبقے کی عورت کے بدترین استحصال کے بیان کے ساتھ ساتھ عورت کے جنسی؛ جذباتی اور نفسیاتی مسائل پر کھل کر لکھا۔ نیلم فرزانہ لکھتی ہیں کہ:
”آزادی سے سوچنے کی عادت اور صاف گوئی نے عصمت سے ایسی کہانیاں اور ناول لکھوائے جن کے لیے بیک وقت وہ بدنام بھی ہوئیں اور نام بھی کمایا۔ غرض عصمت کی پرورش کچھ اس طرح سے ہوئی کے تجسس کے مادے کے ساتھ ساتھ موضوعات کی بے باکی اور لہجے کی تیزی اور
طراری ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔‘‘
عورت کے حوالے سے عصمت کے ناولوں میں جنسی حقیقت نگاری کا پہلو سامنے آتا ہے۔ عصمت خود بھی متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں لہٰذا انہوں نے زیادہ تر متوسط مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی جنسی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ اسی روشنی کو قائم رکھتے ہوئے واجدہ تبسم نے اپنی کہانیوں میں عورت کے استحصال کو بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر عصمت جمیل لکھتی ہیں کہ:
”یہ عورت جو واجدہ تبسم کے افسانوں میں پیش ہوئی ۔ اس کی کوئی ذاتی یا خاندانی زنگی نہیں ہے بلکہ وہ ایک غلام عورت ہے۔ اس سے جسمانی خدمات لی جاتی ہیں۔ غرض یہاں تک کہ استحصال کی ایسی عورتیں نظر آتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔‘‘
علاوہ ازیں جیلانی بانو؛ قراۃالعین؛ بانو قدسیہ؛ ممتاز شیریں؛ جمیلہ ہاشمی؛ الطاف فاطمہ؛ رضیہ فصیح احمد؛ زاہدہ حنا؛ نیلم احمد بشیر؛ کشور ناہید؛ پروین شاکر؛ انہوں نے ادب میں ادب میں اقدارو روایات کی چکی میں پستی آزادی کی خواہاں عورت کے مسائل کو بیان کیا ہے۔ ان تخلیق کار خواتین کے ہاں عورت ایک اہم اور مرکزی موضوع ہے۔ بالخصوص قراۃالعین حیدر کے ہاں عورت بڑے وسیع اور مضبوط پیرائے پر نظر آتی ہے۔ عورت کے مسائل اور اس کے احساسات و جذبات کو بیان کرتے ہوئے اس کی انسانی اور صنفی دونوں حیثیتوں کو پیش نطر رکھا اور اور اہمیت دی اور ایسے نسوانی کردار تخلیق کیے جو کسی بھی سماج میں آئیڈیل لڑکی بننے کی صلاحیت موجود ہے اور جو چاکلیٹ کھاتے ہوئے فلسفے پر گفتگو کرتی ہیں۔ جس کے متعلق ان کی اپنی رائے یہ ہے کہ:
”عورت مختلف طریقوں سے ہمیشہ سے بکتی رہی ہے چاہے وہ کنیز بنا کر بہچی گئی ہو یا اس نے بالاخانہ آراستہ کیا ہو اور ٹھسے کی ڈیرے دار یا طوائف یا گائیکا، اس کو اپنی قدروقیمت خوب معلوم ہے۔‘‘
اُردو ادب کا جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ تانیثیت کا ہر پہلو ہر جگہ اہم موضوع کی صورت ابھر کر سامنے آیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اور سماج میں عورت کی جدوجہد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ عورت ابھی بھی تعلیم؛ صحت؛ ملازمت اور دیگر سماجی حقوق کے حوالے سے مردوں کے مقابلے میں کہیں کم حیثیت میں زندگی گزار رہی ہے۔ پروین اعتصامی اپنی ایک نطم میں لکھتی ہیں کہ:
تقدیر نے کہیں بھی مرد کو کامل اور عورت کوناقص نہیں لکھا
عورت ازل ہی سے خانہ ہستی کا ستون ہے
ہم سبزہ نہیں کی ندی نالوں کے کنارے اگتی رہیں
نہ پرندہ ہیں کہ مٹھی بھر دانے دنکے پر خوش ہیں
اغیار کے بنے ریشم سے ہمارا ٹاٹ ہزار درجہ بہتر ہے
مذ ہبی اساطیر کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری اس دنیا کی کہانی کا آغاز ہی عورت کی وجہ سے ہوتا ہے اور عورت ہی دنیا کی اس کہانی کا سب سے جاندار اور فعال کردار ہے اور حوا کا لغوی مطلب ہی جاندار فعال اور مستحکم ہے تو اس دنیا کے کسی معاشرے یا سماج کے کسی بھی شعبے کو عورت سے جدا کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا اور نہ بیان کیا جا سکتا ہے تو ادب جس کی جڑیں معاشرے اور سماج میں ہوتی ہیں تو وہاں عورت کو کس بنا پر کم تر اور غیر ضروری سمجھا جا سکتا ہے؟ اس لیے اُردو ادب میں عورت اہم اور مرکزی موضوع ہے۔
(مصنفہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان میں ایم فل اُردو کی سکالر ہیں.)