معروف فکشن نگار اور مترجم ڈاکٹر آصف فرخی تین دن علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر آصف فرخی کو دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ ڈاکٹر آصف فرخی 16 ستمبر 1959ء کو کراچی میں نامور ادیب اسلم فرخی کے گھر پیدا ہوئے. آپ کی والدہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی اور شاہد احمد دہلوی کی بھتیجی ہیں۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کیا جب کہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری لی۔
سنہ 2010 میں انہوں نے پاکستان میں ادبی میلوں کا کلچر متعارف کروایا اور اوکسفرڈ یونیورسٹی کے تعاون سے کراچی لٹریچر فیسٹیول کا آغاز کیا۔ اس کی بے مثال کامیابی کو دیکھتے ہوئے ادبی میلوں کا کلچر پورے پاکستان میں تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا۔ سنہ 1994ء سے 2014ء تک ڈاکٹر آصف فرخی نے یونیسف کے ساتھ کام کیا اور 2014 میں حبیب یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر آصف فرخی نے آغا خان یونیورسٹی کراچی میں بھی خدمات سرانجام دیں. انہوں نے ادبی جریدے ’’دنیا زاد‘‘ کی ادارت اور ایک اشاعتی ادارے’’ شہرزاد‘‘ کی انتظامی ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھایا اور ساتھ ہی ساتھ افسانے لکھے، تراجم کیے، تنقید کی، اخبارات میں کالم لکھے اور شاعری بھی کی۔
ان کی چند مشہور کتابوں میں ”عالم ایجاد‘‘، ”آتش فشاں پر کِھلے گلاب‘‘، ”چیزیں اور لوگ‘‘، ”چیزوں کی کہانیاں‘‘، ”اسمِ اعظم کی تلاش‘‘، ”میرے دن گزر رہے ہیں‘‘، ”ناول کا نیا فن‘‘، ”چراغِ شب افسانہ‘‘، ”دہشت گرد سے گوتم بُدھ کی ملاقات‘‘، ”سندر کی چوری‘‘، ”میں شاخ سے کیوںٹوٹا؟‘‘، ”افر کے خوش نصیب‘‘، ”منٹو کا آدمی نامہ‘‘، ”شہرِ علامات‘‘، ”حرفَ من و تُو‘‘، ”بی پُٹکی‘‘ شامل ہیں. علاوہ ازیں ڈاکٹر آصف فرخی نے بے شمار کتب مرتب و ترجمہ کیں.
میں ایم فل کی طالبہ ہوں مجھے تھیسسز کے لیے آصف فرخی کا ٹاپک ملا ہے میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میں اتنی عظیم ہستی پر لکھوں گی اور ریسرچ کروں گی