جو سانحہ پیر یکم جون کو ہوا، اس کا آج چھٹا دن ہے۔ اس پر فوری طور پر کچھ لکھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ شاید آج بھی نہیں۔ لیکن پھر اچانک ایک خودکلامی شروع ہو گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید، کچھ ٹوٹا پھوٹا ہی سہی، کچھ منتشر خیالات، چند اداس کر دینے والے احساسات، کچھ تو ہے جو اظہار کا خواہش مند ہے۔ کوئی گھٹن ہے، جو بضد ہے کہ اسے جہاں وہ ہے، وہاں سے باہر کا رستہ دکھایا جائے۔
اعتراف یہ ہے کہ میں آصف فرخی کو کبھی نہیں ملا تھا لیکن جانتا انہیں طالب علمی کے زمانے میں اس دور سے تھا جب کالج میں ہمارے ایک شفیق پروفیسر اور دوست بن جانے والے استاد نے کہا تھا، ”سدھارتھ پڑھو، ہیرمان ہیسے کا، آصف فرخی کا ترجمہ کیا ہوا۔‘‘ میری چوں کہ پاکستان سے ترک وطن سے پہلے صرف چند ہفتے چھوڑ کر ساری زندگی بس لاہور ہی میں گزری، تو ایک شام گھر سے نکل کر چند دوستوں کے ساتھ مال روڈ پر مسجد شہداء کے قریب گوگو کیفے پر کافی پینے کے لیے جاتے ہوئے انور پان شاپ پر سگریٹ لینے کے لیے رکنے کا ارادہ تھا تو اس سے چند دکانیں پہلے ہی نظر ایک بار پھر کتابوں کی اس دکان پر پڑی جس کے مالک ساٹھ باسٹھ برس کے کوئی بہت ہی نفیس انسان تھے۔ میں دکان کے اندر گیا تو ان سے پوچھا، ”ہیرمان ہیسے کا سدھارتھ؟‘‘ بولے، ”ایک ہی کاپی ہے۔‘‘ میں نے وہ خزانہ تب شاید پندرہ یا بیس روپے میں خریدا تھا۔ اب کئی برسوں سے اسی جگہ پر شاید بہت مہنگے جوتوں کی کوئی سینٹرلی ایئر کنڈیشنڈ دکان ہے۔
دوستوں کے ساتھ کافی پی کر اور اس دور کے لاہور کی تب تک شدید گرمی کے موسم میں بھی ٹھنڈی اور خوبصورت رہنے والی رات کے چند گھنٹے فیروز سنز بک سٹور اور انڈس ہوٹل کے سامنے سڑک کے پار، ٹرکش ایئر لائنز کے دفتر کے سامنے، فٹ پاتھ کے ایک حصے پر فولاد کے جنگلے والی، گہری سبز گھاس کی ایک خوبصورت ٹکڑی پر بیٹھ کر شعر و ادب پر گفتگو کے بعد گھر لوٹا تو ایک ہی رات میں ”سدھارتھ‘‘ پڑھ ڈالا۔ میں شاید اس رات سویا نہیں تھا یا شاید مزنگ میں ہمارے آبائی گھر سے متصل محلے کی مسجد میں فجر کی اذان کے بعد کچھ دیر کے لیے۔
عجیب اتفاق ہے کہ بعد کے برسوں میں مجھے ”سدھارتھ‘‘ اُردو کے علاوہ پہلے انگریزی اور پھر جرمن میں بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ تینوں کے اپنے مزے تھے۔ انگریزی میں ایک بین الاقوامی زبان کے قاری کے طور پر اس شاہکار ناولٹ کے مطالعے کا اپنا ہی مزہ تھا، جرمن میں اس کتاب کو پڑھنے کا لطف اس لیے بےمثال تھا کہ الفاظ اور ان کے پس پردہ خیالات، محسوسات اور تجربات سے عین ویسے ہی شناسائی کا موقع ملا کہ جیسے ہیرمان ہیسے (Hermann Hesse) نے انہیں سوچا اور لکھا تھا۔ یہ ایک بہت ہی خوش کن احساس تھا۔ اُردو میں ہیسے کی اس تخلیق کو پڑھ کر ایسے لگتا تھا کہ جیسے آصف فرخی ہی اس شاہکار کے مصنف تھے۔ یہ بات بین الاقوامی ادب کے کسی بھی مترجم کے لیے اس کے اور سدھارتھ کے معاملے میں آصف فرخی کے حسنِ فن کا اعلیٰ ترین اعتراف ہے۔ اُردو میں پڑھتے ہوئے آج بھی ایسا نہیں لگتا کہ یہ ناولٹ کسی نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب کا لکھا ہوا ہے۔
میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں ایک صحافی کے طور پر سیکڑوں عظیم اور انتہائی مشہور سیاسی، ثقافتی، مذہبی، سماجی اور ادبی شخصیات کے انتقال کی خبریں لکھی، پڑھی اور شائع کی ہیں۔ پہلے صرف ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات ہوتے تھے۔ اب سوشل میڈیا نے یہ منظر نامہ اتنا پھیلا دیا ہے کہ کسی بھی اخبار، ریڈیو یا ٹی وی کے بغیر بھی کسی نامور شخصیت کے انتقال کی خبر ”ریئل ٹائم‘‘ میں ناروے سے جنوبی افریقہ اور کینیڈا سے نیوزی لینڈ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کا ایک نقصان بھی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر ایسے لکھنا شروع کر دیتا ہے کہ لکھنے والے زیادہ اور قارئین کم پڑ جاتے ہیں۔
آزادی رائے اور آزادی اظہار ہر انسان کے بنیادی حقوق ہیں، جن کی کسی بھی طور نفی نہیں کی جانا چاہیے۔ لیکن اب یہ بات بھی عام ہے کہ جب کسی بڑے شاعر،ادیب، عوامی شخصیت یا مشہور فنکار کا انتقال ہوتا ہے، تو سوشل میڈیا کی دنیا میں عام لوگوں کے مابین ایک دوڑ سی شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ الماریوں، درازوں یا پھر اپنے کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسکس اور موبائل فونز کی فوٹو گیلریوں میں سے ایسی ایسی تصاویر نکال کر شیئر کرنے لگتے ہیں کہ جیسے مرنے والے کا دنیا میں سب سے مضبوط تعلق بس انہی کے ساتھ تھا۔ یہ ایک مشاہدہ ہے، تنقید نہیں۔
مروجہ طریقہ ہائے کار کو دیکھا جائے تو میں ذاتی طور پر اس حوالے سے ”نان کنفارمسٹ‘‘ ہوں، اگر کسی انتقال کر جانے والی اہم شخصیت سے کوئی تعلق، کوئی غائبانہ عقیدت یا کوئی انسیت رہی بھی ہو، تو دکھ کچھ کہنے کی خواہش کے بجائے اندر ہی اندر خشک مٹی پر گرنے والی بارش کی بوندوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے کسی بھی انسانی رویے میں اہم بات شاید یہ بھی ہوتی ہو گی کہ کوئی انسان کسی بھی معاملے میں مقابلہ بازی کو کتنا پسند کرتا ہے اور جو کچھ ذاتی طور پر اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اسے اپنے اندر ہی رکھتا ہے یا اس میں دوسروں کو بھی اپنا حصے دار بنا لیتا ہے۔
آصف فرخی کے انتقال پر میں نے ان کے ساتھ اپنی کوئی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں کی۔ میرے پاس تھی ہی نہیں۔ اگر ہوتی بھی تو کیا میں شائع کرتا، اس سوال کا جواب میں ہی جانتا ہوں، جو شاید اکثر netizens کی ترجیحات سے مختلف ہی ہوتا۔ جس روز آصف فرخی کے انتقال کی خبر سنی، اس روز محسوس ہوا کہ آج اُردو میں مجھے ہیرمان ہیسے سے ملانے والا وہ شخص بیچ میں سے نکل گیا ہے، جس نے یہ کام کرتے ہوئے خود کو اپنے کام سے اس طرح باہر نکال دیا تھا کہ قاری ہیسے کے ساتھ اکیلا ہم کلام ہوتا تو ہے مگر فرخی کے بغیر یہ ہم کلامی ممکن بھی نہیں تھی۔ اگلے روز جب میں بون میں اپنے دفتر میں معمول کے مطابق کام کر رہا تھا اور اس دن کی دیگر رپورٹوں کے ساتھ ساتھ ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے شعبہ اُردو کی طرف سے آصف فرخی کی کراچی میں تدفین کے بارے میں رپورٹ بھی ایڈیٹ کر کے شائع کی جا رہی تھی، تو بھی میں نے یہ بات اپنے دل میں ہی رکھی کہ میری رائے میں یہ کس طرح کی منفرد شخصیت کے آخری سفر کی کہانی تھی۔
میرے لیے اُردو میں ”سدھارتھ‘‘ کی خوبصورتی یہ ہے کہ آصف فرخی نے بعد میں دلی طور پر ان کے شکر گزار ہونے والے بہت سے دیگر اُردو قارئین کی طرح ایک نوجوان کے طور پر مجھے بھی ہیرمان ہیسے سے میرے اپنے ہی ملک اور شہر میں اس وقت متعارف کرایا کہ جب ہم جیسوں نے نہ کبھی یورپ دیکھا تھا، نہ یہ پتا تھا کہ جرمنی کی سرحدیں کن ممالک سے ملتی ہیں اور نہ ہی یہ شعور تھا کہ جرمن اگر واقعی ایک بہت خوبصورت زبان ہے تو کیسے اور کیوں؟ آج پلٹ کر دیکھوں تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ترک وطن کو بھی تقریباً اتنا ہی عرصہ ہو گیا جتنا وطن میں گزرا تھا۔
ہم بطور انسان اپنی زندگی میں جو خواہشیں کرتے ہیں یا مختلف انسانوں کے بارے میں جو کچھ سوچتے ہیں، وہ ہر انسان کے بارے میں مختلف ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم میں سے ہر ایک کا کسی بھی دوسرے انسان سے رشتہ اتنا منفرد ہوتا ہے کہ ویسا کسی تیسرے کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی بھی انسانی رشتہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی انسان کے فنگر پرنٹس۔ جب ڈی ڈبلیو کی اُردو ویب سائٹ پر آصف فرخی کی تدفین کی رپورٹ شائع کی جا رہی تھی، میرے اندر سے ایک سوال اٹھا، ”اگر تم بھی آصف فرخی کی نماز جنازہ میں شرکت کرتے تو؟‘‘ پھر فوراً ہی میرے اندر ”دوسرے میں‘‘ نے اس کا جواب دیا، ”اگر میں نماز جنازہ میں شرکت کرتا تو سب سے آخری صف میں بالکل سرے پر کھڑا ہوتا!‘‘
”مگر ایسا کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ”عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں،‘‘ ”دوسرا میں‘‘ بولا۔ پھر ساتھ ہی اس نے اپنے طور پر ایک مشورہ بھی داغ دیا، ”یہ زندگی ہے۔ ہر چیز کے، ہر عمل کے، ہر سوچ کے معنی نہ ڈھونڈتے رہا کرو!‘‘ میں حیران تھا کہ یہ میں ہی خود کو کیا کہہ رہا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی میرے ذہن کے کسی نہاں خانے میں گلزار بھی کھنڈروں میں اپنی بہت رسیلی آواز میں کچھ کہتے جا رہے تھے:
میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں زندگی کے معنی گرے ہیں اور گر کے کھو گئے ہیں
بات ہیرمان ہیسے، گلزار یا آصف فرخی کی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جہاں کھنڈروں میں زندگی کے معنی گر کر گم ہو جاتے ہوں، وہاں عادتیں عجیب ہی ہو جاتی ہیں۔ تب عادتوں کا عجیب ہونا عجیب نہیں ہوتا، ان کا عجیب نہ ہونا عجیب ہوتا ہے۔
میں نے اس دکھ کو بھی اپنے اندر بارش کی بوندوں کی طرح خشک مٹی پر گرنے دیا کہ میں آصف فرخی کی نماز جنازہ میں آخری صف کے سرے پر کھڑا نہ ہو سکا۔ عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔