میں نے فروری کے بعد اس مہینے پہلی مرتبہ فرینکفرٹ کے سب وے میں قدم رکھا‘ تاکہ تین ماہ کی جدائی کے بعد چار ہزار میل دور بحراوقیانوس کے اس پار جا کر اپنی بیوی سے مل سکوں۔ پچھلے پچیس برسوں میں مجھے بے شمار دفعہ امریکا جانے کاموقع ملا‘ کیوں کہ میں اپنے روزگا رکے سلسلے میں جرمنی میں مقیم ہوں‘ مگر اس مرتبہ کورونا وائرس کے درمیان مجھے ایسے لگا کہ میں کسی انجان منزل کا مسافر ہوں۔ اب‘ سرحدیں پار کرنا کوئی آسان کام نہیں رہا۔
یورپی شہری ابھی تک امریکا میں ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ میں ایک ایسے ملک سے سفر شروع کرنیوالا تھا‘ جو حال ہی میں لاک ڈاؤن سے باہر نکلا ہے اور ایسے ملک کی طرف سفر کرنے والا تھا‘ جہاں ابھی تک بعض علاقوں میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے۔ ایک دن کے طویل سفر کے بعد میں اپنی اہلیہ بیٹینا کے پاس پہنچ گیا‘ مگر یہ تجربہ کسی حد تک مایوس کن بھی تھا اور کسی حد تک غیر حقیقی بھی‘ جس کے بعد میرے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ اب ہم کبھی پہلے کی طرح فضائی سفر نہیں کر سکیں گے۔ جب میں نے فلائٹ بک کرانے کی کوشش کی تو مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ سفر کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوگا‘ اگر میں نے آن لائن اپنا سفر ملتوی کر دیا تو لفتھانسا (Lufthansa Airline) مجھے فلائٹ ووچر واپس نہیں کرے گی؛ چنانچہ مجھے انتہائی مصروف سروس سنٹر کوکال کرنا پڑا‘ جس نے طویل انتظار کرانے کے بعد میری سیٹ تو ریزرو کر دی‘ مگر پھر مجھے ای میل کے ذریعے اس کی کنفرمیشن کرنا بھول گئے۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ میری بکنگ برقرار ہے یا نہیں۔
میں نے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی‘ مگر ہر بار ناکام رہا۔ ایک دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ مجھے ایک گھنٹے سے زیادہ فون ہولڈ کرانے کے بعد کال کٹ گئی‘ تاہم میں نے کسی نہ کسی طرح اپنی بکنگ کنفرم کرا لی تھی‘ مگر اس وقت فلائٹ کی روانگی میں صرف چوبیس گھنٹے باقی رہ گئے تھے…
جب میں اپنے سفر والے دن فرینکفرٹ ایئر پورٹ پہنچا تو چیک اِن پر دو درجن کے قریب لوگ قطار میں کھڑے تھے۔ عام حالا ت میں امریکا جانے والی تما م فلائٹس جرمن سیاحوں سے بھری ہوتی ہیں‘ مگر اس قطار میں کھڑے تمام مسافر امریکی لہجے میں انگلش بول رہے تھے۔ ان کے کیموفلاج لباس سے پتا چل رہا تھا کہ وہ فوجی جوان تھے اور امریکا اپنی فیملیز کے پا س جا رہے تھے. پھر اچانک یہ ہوا کہ پاسپورٹ چیک کرنے والے ایئر لائن کے ایک ملازم نے مجھے اس قطار سے باہر نکال لیا اورکہا کہ میں امیگریشن کا انتظار کروں… ایک پریشان کن تجربے کے بعد میں تو پہلے ہی نروس تھا کہ مجھے اس سفر کے دوران پتہ نہیں اور کیا کچھ بھگتنا پڑے گا‘ تاہم یہ جان کر مجھے کچھ سکون ملا کہ امیگریشن والے میرے ہی نام سے ملتے جلتے کسی شخص کی تلاش میں تھے‘ مگر اس کی عمر مجھ سے نصف تھی۔
چند منٹ بعد مجھے میرا بورڈنگ پاس مل گیا. میں ڈیوٹی فری شاپس کے پا س سے گزر رہا تھا جو اس وقت بند تھیں۔ ماربل کے پالش شدہ فرش پر مجھے اپنے ہی قدموں کی باز گشت سنائی دے رہی تھی۔ یہاں کے حالات عجیب تھے۔ ویران ایئر پورٹ بھی محظوظ ہونے کے لیے ایک منفرد موقع فراہم کر رہا تھا۔ سفر کی زیادہ تر پریشانی طویل قطاروں میں کھڑے ہونا اور ہجوم میں سے دھکم پیل کرتے گزرنا ہوتا ہے‘ تاہم فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر مکمل سکون تھا؛ حتیٰ کہ ایئر پورٹ کے گارڈز بھی خو ش مزاج لگ رہے تھے۔ جہاز کے اندر پہنچ کر بھی ایک عجیب اطمینان کا احساس ہو رہا تھا۔ جہاز Boeing 787 Dreamliner تھا‘ جسے یونائٹیڈ ایئر لائن (United Airlines) چلا رہی تھی‘ جو سٹار الائنس میں لفتھانسا کی شراکت دار تھی۔ فیملیز کے سوا ہرمسافر کے درمیان ایک سیٹ خالی تھی۔
بالفاظ دیگر ہم جہازمیں کسی طرح بھی پیک نہیں تھے۔ یونائٹیڈ ایئر لائنز نے پوری تسلی کرائی تھی کہ جہاز کو پوری طرح ڈس انفیکٹ کیا گیا ہے‘ پھر بھی میں نے اپنے اردگرد کو جراثیم کش کی مدد سے اچھی طرح صاف کیا۔ میں نے پورے سفر کے دوران ماسک پہنے رکھا۔ سب سے غیر معیاری چیز لنچ تھا۔ کوئی شخص بھی فلائٹ کوئزین سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرتا‘ مگر سینیٹیشن کے نام پر سپائسی چکن اور فروٹ کے پیکٹ دے دیئے گئے‘ جنہیں پلاسٹک فلم سے سیل کیا گیا تھا۔ لنچ کے بعد کافی یا چائے بھی نہ ملی۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید کافی یا رول والی عیاشی اب فضائی سفر میں دوبارہ کبھی نہ ہوسکے۔ آٹھ گھنٹے کے بے کیف سفر کے بعد ہم واشنگٹن کے قریب ڈلس ایئر پورٹ (Dulles International Airport) پر اترے جہاں سے میں نے برلنگٹن (Burlington) کے لیے دوسری فلائٹ پکڑنا تھی۔ یہی وہ شہر تھا جہاں میں پلا بڑھا تھا اور جہاں اس عالمی وبا کے زمانے میں میری بیوی اور چوبیس سالہ بیٹی میرا انتظار کرر ہی تھیں۔
امریکا میں پہنچنا میرے سفر کا وہ حصہ تھا‘ جس کے بارے میں مجھے خاصی تشویش تھی۔ ایک فارم پکڑانے سے پہلے مجھے اور دیگر مسافروں پر ایک بات واضح کر دی گئی کہ یورپی یونین کے ممالک سے آنے والے مسافروں کا یہاں خوش دلی سے استقبال نہیں کیا جاتا۔ اس میں میرے جیسے امریکی شہریوں کے لیے بھی کوئی استثنیٰ نہیں تھا؛ حالاں کہ میں جانتا تھا کہ ایسا ہونا چاہیے تھا‘ تاہم کوئی زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔ ڈلس پر ایک نرس نما خاتون نے میرا فارم چیک کیا اور مجھ سے پوچھا کہ میں بیمار تو نہیں ہوں اور ایک سینسر میری پیشانی کے قریب لا کر میرا ٹمپریچر چیک کیا۔ یہ سمجھنا تو چنداں مشکل نہیں تھا کہ بد ذائقہ کھانے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے چیک اب عالمی سفر کے دوران ایک روٹین کی بات ہوگی۔ مسافر اب صرف یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ اس عالمی وبا کے بعد انہیں کچھ مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے کوملیں گی‘ مثلاً اب فلائٹس میں زیادہ رش نہیں ہوگا اور بھاری فیس دیئے بغیر اب فلائٹس تبدیل کرانے کی بھی آزادی ہوگی۔
ڈلس تو فرینکفرٹ سے بھی زیادہ خاموش اور ویران نظر آیا۔ یونائیٹڈ ایئر لائنز کے جیٹ طیاروں کی قطاریں ساتھ والے رن وے پر لگی نظر آرہی تھیں۔ یہ سب کسی ویکسین کی ایجاد کے منتظرتھے‘ تاکہ دوبارہ پروازوں کا سلسلہ بحال ہوسکے۔ جب ہم نے لینڈ کیا تو وہاں کوئی نام نہیں پکار رہا تھا‘ سوائے میری اہلیہ کے دوستانہ چہرے کے‘ جس طرح کسی سڑک پر یہ الرٹ لکھا ہوتا ہے کہ آگے سڑک پر کام ہو رہا ہے‘ اسی طرح ایئر پورٹ کے ایگزٹ پرصرف یہ لکھا نظر آرہا تھا: Stay Home۔ چند دن بعد مجھے محکمہ صحت سے ایک خاتون کی فون کال موصول ہوئی جو پوچھ رہی تھی کہ کیا میری صحت ٹھیک ہے؟ وہ دراصل مجھے قرنطینہ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کی یاد ہانی کرا رہی تھی اور بتا رہی تھی کہ بوقت ضرورت کورونا وائرس کا ٹیسٹ کہاں کہاں سے ہو سکتا ہے؟ میں نے جواباً کہا کہ ’’میں بالکل ٹھیک ہوں اور میری خیر خیریت دریافت کرنے کا شکریہ‘‘۔
(بشکریہ: دی نیو یارک ٹائمز، مترجم: زاہد حسین رامے، روزنامہ دنیا)
نوٹ: مضمون کا اصل متن یہاں پڑھا جا سکتا ہے.
جیک ایونگ (Jack Ewing) ایک نامور صحافی ہیں اور 1994ء سے جرمنی میں شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں. آپ دی نیو یارک ٹائمز سے یورپی نامہ نگار برائے معاشیات کے طور پر منسلک ہیں اور جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں قیام پذیر ہیں. جیک ایونگ مختلف کتب کے مصنف بھی ہیں.