اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ادباء و شعراء کے لیے پچاس لاکھ روپے مالیت کے انعامات کا اعلان کیا گیا ہے- وفاقی وزیر جناب شفقت محمود کی طرف سے ”کمالِ فن ایوارڈ 2018ء‘‘ اور ”قومی ادبی ایوارڈ 2018ء‘‘ انعامات حاصل کر نے والے اہل قلم کو مبارک باد۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت اور قومی ورثہ و ثقافت شفقت محمود نے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ”کمالِ فن ایوارڈ 2018ء‘‘ اور ”قومی ادبی ایوارڈ 2018ء‘‘ انعامات حاصل کر نے والے اہل قلم کو مبارک باد کے پیغام میں کہا ہے کہ حکومت پاکستانی ادب و ثقافت کے فروغ اور اسے عالمی سطح پر روشناس کرانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ پاکستانی زبانوں میں لکھے جانے والا ادب دنیا کے کسی بھی ادب کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکتا ہے. کمالِ فن ایوارڈ یافتہ ادیب منیر احمد بادینی بلوچستان کے اہم لکھنے والوں میں سے ہیں انہوں نے بلوچی میں سو سے زیادہ ناول لکھے ہیں جو پاکستانی ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی زبانوں کے اہل قلم حسن منظر، ڈاکٹر تحسین فراقی، زہرا نگاہ، رائے محمد خاں ناصر، احمد شہباز خاور، وفا ناتھن شاہی، زیب سندھی، افراسیاب خٹک، ڈاکٹر قاضی حنیف اللہ حنیف، عنایت اللہ قومی، اکبر بارکزئی، محمد ظہیر احمد، محمد حفیظ خان، سید علی محمد شاہ ہاشمی، عمران فریق، سید سعید گیلانی، نذیر بھٹی، فاطمہ، سارا جاوید، نسیم احمد اور ڈاکٹر اقبال آفاقی ہمارے ملک کے اہم لکھنے والوں میں ہیں۔ ان کی کتابوں پر ایوارڈ ملنے سے نوجوان لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی اور ان کی کتابیں سامنے آئیں گی اور ہمارا ادب پروان چڑھے گا۔ انہوں نے موجودہ صورتحال میں چیئرمین، اکادمی ادبیات پاکستان، ڈاکٹر یوسف خشک کی جانب سے اکادمی کو مستقل متحرک رکھنے کی کوششوں کو سراہا اور ایوارڈ یافتہ ادیبوں کو ایوارڈ ملنے پرمبارک باد دی۔
اس سے قبل ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے ایوارڈ کمیٹی کے آن لائن اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اکادمی کی طرف سے پچاس لاکھ روپے کے ”کمالِ فن ایوارڈ 2018ء‘‘ اور ”قومی ادبی ایوارڈ 2018ء‘‘ انعامات کا اعلان کرتے ہو ئے بتایا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے زندگی بھر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ”کمالِ فن ایوارڈ 2018ء‘‘ کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز ادیب، ناول نگار اور اہل قلم منیر احمد بادینی کو منتخب کیا گیا ہے۔ ”کمالِ فن ایوارڈ‘‘ ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے جس کی رقم دس لاکھ روپے ہے۔ 2018ء کے ”کمالِ فن ایوارڈ‘‘ کا فیصلہ پاکستان کے معتبر اور مستند اہل دانش پر مشتمل منصفین کے پینل نے کیا جس میں مسعود اشعر، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، نورالہدیٰ شاہ، پروفیسر ڈاکٹر روف پاریکھ، قاضی جاوید، ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر، محمد ایوب بلوچ، نورخان محمد حسنی، ڈاکٹر سلمیٰ شاہین، ناصر علی سید، محمد حسن حرت اور حارث خلیق شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت مسعود اشعر نے کی۔ ”کمالِ فن ایوارڈ‘‘ ہر سال کسی بھی ایک پاکستانی اہل قلم کو ان کی زندگی بھر کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے جس کا اجراءا کادمی ادبیات پاکستان نے 1997ء میں کیا تھا۔ یہ ایوارڈ احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، مشتاق احمد یوسفی، احمد فراز، شوکت صدیقی، منیر نیازی، ادا جعفری، سوبھو گیان چندانی، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جمیل الدین عالی، محمد اجمل خان خٹک، عبد اللہ جان جمالدینی، محمد لطف اللہ خان، بانو قدسیہ، محمد ابراہیم جویو، عبداللہ حسین، افضل احسن رندھاوا، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، امر جلیل اور ڈاکٹر جمیل جالبی کو دیا جا چکا ہے۔ چیئرمین اکادمی، ڈاکٹر یوسف خشک نے ”قومی ادبی ایوارڈ‘‘ برائے سال 2018ء کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اُردو نثر (تخلیقی ادب) ”سعادت حسن منٹو ایوارڈ‘‘ حسن منظر کی کتاب ”جھجک‘‘، اُردو نثر (تحقیقی وتنقیدی ادب) ”بابائے اُردو مولوی عبدالحق ایوارڈ‘‘ ڈاکٹر تحسین فراقی کی کتاب ”نکات‘‘، اُردو شاعری ”ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایوارڈ‘‘ زہرا نگاہ کی کتاب ”گل چاندنی‘‘، پنجابی شاعری ”سید وارث شاہ ایوارڈ‘‘ رائے محمد خاں ناصر کی کتاب ”ہڈک‘‘، پنجابی نثر ”افضل احسن رندھاوا ایوارڈ‘‘ احمد شہباز خاور کی کتاب ”گُھنوں‘‘، سندھی شاعری ”شاہ عبدالطیف بھٹائی ایوارڈ‘‘ وفا ناتھن شاہی کی کتاب ”آیو جھول بھرے‘‘ سندھی نثر ”مرزا قلیچ بیگ ایوارڈ‘‘ زیب سندھی کی کتاب ”آخری ماٹھو‘‘، پشتو شاعری ”خوشحال خان خٹک ایوارڈ‘‘ افراسیاب خٹک کی کتاب ”نوائے تیغ‘‘، پشتو نثر ”محمد اجمل خان خٹک ایوارڈ‘‘ ڈاکٹر قاضی حنیف اللہ حنیف کی کتاب ”پشتو شاعری کے سائنسی شعور او اظہار‘‘، بلوچی شاعری ”مست توکلی ایوارڈ‘‘ عنایت اللہ قومی کی کتاب ”بیا کپوت وش نالگیں‘‘، بلوچی نثر ”سید ظہور شاہ ہاشمی ایوارڈ‘‘ اکبر بارکزئی کی کتاب ”زبان زانتی ءُ بلوچی زبان زانتی‘‘، سرائیکی شاعری ”خواجہ غلام فرید ایوارڈ‘‘ محمد ظہیر احمد کی کتاب ”الا‘‘، سرائیکی نثر ”ڈاکٹر مہر عبدالحق ایوارڈ‘‘ محمد حفیظ خان کی کتاب ”ادھ ادھورے لوک‘‘، براہوئی شاعری ”تاج محمد تاجل ایوارڈ‘‘ سید علی محمد شاہ ہاشمی کی کتاب ”خوشبو نا سفر‘‘، براہوئی نثر ”غلام نبی راہی ایوارڈ‘‘ عمران فریق کی کتاب ”اینو ہم خدا خوشے‘‘، ہندکو شاعری ”سائیں احمد علی ایوارڈ‘‘ سید سعید گیلانی کی کتاب ”پپل وترے‘‘، ہندکو نثر ”خاطر غزنوی ایوارڈ‘‘ نذیر بھٹی کی کتاب ”شام اَلم‘‘، انگریزی نثر ”پطرس بخاری ایوارڈ‘‘ فاطمہ بھٹو کی کتاب “The Run Aways‘‘، انگریزی شاعری ”داؤد کمال ایوارڈ‘‘ سارا جاوید راٹھور کی کتاب ”Meraki‘‘ اور ترجمے کے لیے ”محمد حسن عسکری ایوارڈ‘‘ نسیم احمد/ڈاکٹر اقبال آفاقی کے انگریزی سے اُردو ترجمہ کی کتاب ”فلسفہ تاریخ‘‘ کو دیا گیا۔ قومی ادبی انعام حاصل کرنے والی ہر کتاب کے مصنف کو دو دولاکھ روپے بطور انعامی رقم دیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اہلِ قلم مذہب، رنگ ونسل، زبان اور خطے سے بالا تر ہو کر صرف انسانیت کے لیے سوچتے ہیں۔ حقیقی فن پارے میں کسی نوعیت کا تعصب نہیں ملے گا اور دنیا کا کوئی بھی معاشرہ صحیح معنوں میں اس وقت تک معزز نہیں کہلا سکتا جب وہ مذہب بنانے والوں کی قدر نہیں کرتا۔ اکادمی ادبیات پاکستان اہل قلم کی خدمات کا اعتراف کرتی رہتی ہے ملک کے نامور ادبی شخصیات کو ادب کے میدان میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں ”کمال فن ایوارڈ‘‘ دیتی ہے اور اسی طرح ہر سال پاکستانی زبانوں میں لکھے جانے والی بہترین کتابوں پربھی ایوارڈز کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت اور قومی ورثہ و ثقافت شفقت محمود اور وفاقی سیکریٹری قومی ورثہ و ثقافت انعام اللہ خان کی سرپرستی میں اکادمی میں ”ہال آف فیم‘‘، ”لٹریری میوزیم آف پاکستانی لینگویجز‘‘ کی تیاری کا آغاز کر رہے ہیں اس کے علاوہ چائنا رائٹرز فورم کے تعاون سے انٹر نیشنل کانفرنس اور پاک ترک لٹریری فیسٹیول پر کام جاری ہے۔
رپورٹ: طارق شاہد