دور حاضر میں فکاہیہ ادب لکھنے والوں میں نوجوان ادیب اور کالم نگار علی رضا احمد ایک بیش بہا اضافہ ہیں. وہ ایک پڑھے لکھے اور زندگی کے نشیب و فراز سےکماحقہ طور پر واقفیت رکھنے والے انسان ہیں. اُن کے ایک ایک جملے کے پیچھے گہری سوچ و بچار اور جان جوکھم کے تجربات کی عکاسی دکھائی دیتی ہے.
ان کی تحریریں اس بات کی غماز ہیں کہ وہ محض کاغذات کو کالا کرنے کے لیے نہیں لکھتے یا صرف صفحات کو بھرنے کا کام نہیں کرتے بلکہ ان کا مطمع نظر ایک مقصد اور ایک سبق ہوتا ہے جو وہ اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں اور میں نے اپنی نصف صدی پر محیط صحافتی زندگی میں ایسے لوگ بہت کم کم دیکھے ہیں جو اپنے نظریے اور اصولوں کے ساتھ اس قدر مضبوطی کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی جگہ سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ اپنے پختہ دلائل اورمضبوط شواہد کی روشنی میں اپنا مافی الضمیر بیان کر دیتے ہیں اور ان تمام خصوصیات کے ساتھ جب آپ کو اپنی بات فکاہیہ پیرائے میں آگے بڑھانی ہو تو میرے نزدیک یہ موجودہ دور کا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے اُردو ادب کی تاریخ میں ایک مشکل ترین انداز سمجھا جاتا ہے. اس بات کا اندازہ آپ میری اس دلیل سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اگر آپ اُردو ادب کے لکھاریوں میں فکاہیہ ادب لکھنے والوں کا تناسب دوسرے تمام لکھنے والوں کے مقابلے میں ڈھونڈیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ ایک فی صد سے بھی کم ہے. اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ فکاہیہ ادب اپنے اصولوں اور مقاصد پر قائم رہتے ہوئے لکھنا جوئےشیر لانے سے کم نہیں ہے. الحمدللہ یہ تمام نظم و ضبط علی رضا احمد کی تحریروں میں بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے.
آپ ان کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں ”مزاح راہ‘‘ میں آپ کو جو چاشنی دکھائی دے گی ”دھجی آں‘‘ میں وہ اس سے بھی بڑھ کر سامنے آئے گی. اسی طرح ”ایرے غیرے‘‘ میں اس کا گراف مزید اوپر کی طرف جاتا ہوا آپ محسوس کریں گے اور پھر ”مزاح مین‘‘ میں تو یہ چاشنی اپنی بلندیوں کو چھوتی ہوئی دکھائی دے گی. یہی وہ خوبیاں ہیں جو علی رضا احمد کو اپنے ہم عصر لکھاریوں کی صف میں قد آور ثابت کرتی ہیں. یہی نہیں وہ باقاعدگی کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور رسائل میں کالم بھی لکھتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے قارئین کا حلقہ عام لکھنے والوں کی نسبت زیادہ اور بھر پور ہے. آخر میں علی رضا احمد کے لیے میری دعا ہے کہ ”اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘
(اُردو گلوبل انٹرنیشنل)