اُردو میں آج کل سفرنامہ بہت لکھا جارہا ہے۔ بلکہ بعض سفرنامے پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ سفر کیا ہی اس لیے گیا تھا کہ سفرنا مہ لکھا جاسکے۔ یہ صنف قارئین میں مقبول بھی بہت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس مقبولیت میں رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اور بعض سفرنامہ نگارغیر ممالک میں پیش آئے حقیقی یا فرضی رومانی واقعات بیان کرتے ہوئے مبالغہ آرائی کی تمام حدود پار کرجاتے ہیں۔
دراصل آج سے کوئی پچیس تیس سال پہلے اُردو میں سفرنامہ نگاری نے ایک وبا کی سی شکل اختیار کرلی تھی۔ ہر کس وناکس سفرنامہ لکھنے لگا تھا اور بہت سے غیر معیاری بلکہ ’’خیالی‘‘ سفرنامے بھی لکھے گئے۔ پیرس کے نام پر لکھے گئے ایک سفرنامے کے بارے میں شبہہ ہے کہ اس میں بیان کیے گئے بیش تر واقعات فرضی اور جعلی ہیں اور کچھ سرقہ بھی کیا گیاہے۔ اسی لیے مشتاق احمد یوسفی نے ’’آبِ گم‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہ اُردو فکشن کا سنہری دور ہے۔ آج کل اُردو میں بہترین فکشن لکھی جارہی ہے، خود نوشت اور سفرناموں کی شکل میں.‘‘
لیکن اُردو میں بعض بہت عمدہ سفرنامے بھی لکھے گئے ہیں جو اس صنف کی آبرو ہیں اور جنھوں نے اُردو ادب کا دامن بھی وسیع کیا ہے تو کیوں نہ آج اُردو کے دس بہترین سفرناموں کا ذکر ہوجائے۔ لیکن یہ انتخاب بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ ڈاکٹر انور سدید نے اپنی کتاب ’’اُردو ادب میں سفرنامہ‘‘ میں اُردو کے کم و بیش چار سو سفرناموں کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ انور سدید کی اس کتاب کی اشاعت (ناشر: مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، لاہور۔ سن اشاعت: 1987ء) کو بھی اب تیس برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس تعداد میں کم از کم ساٹھ ستر کا اضافہ نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
سفرنامے کے ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سفرنامہ صرف کسی ملک یا شہر کی تاریخ، جغرافیہ اور سماجی حالات کے بیان کا نام نہیں ہے بلکہ سفرنامہ نگار جب تک اپنے احساسات، مشاہدات اور تاثرات میں قاری کو شریک نہیں کرتا اور قاری کو اپنے اندر کی دنیا میں جھانکنے کا موقع نہیں دیتا تب تک سفرنامہ محض خارج کی دنیا کا بیان اور واقعات کی کھتونی ہی رہتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ کام یاب سفرنامہ داخلیت اور خارجیت کا ایسا متوازن اور خوب صورت بیان ہوتا ہے جس میں لکھنے والے کا اسلوب اور اس کا مزاج انفرادیت کا رنگ بھرتے ہیں۔ اگر سفرنامہ نگار ایک سیاح کے فطری تجسس اور ایک بے چین روح کا مالک نہیں ہے تو اس کا سفرنامہ بھی اس کے سفر کی طرح ایک لگے بندھے اور طے شدہ مشینی انداز میں شروع ہو کر اسی طرح ختم ہو جائے گا۔
اُردو کا پہلا سفرنامہ یعنی یوسف خاں کمبل پوش کا عجائباتِ فرنگ، جس کا دوسرا نام تاریخِ یوسفی ہے اور جو پہلی بار 1847ء میں شائع ہوا (اس کا دوسرا ایڈیشن 1873ء میں منظرِعام پر آیا)، اسی لیے اس فہرست میں شامل نہیں ہے کہ اس میں مصنف کے ذاتی تاثرات کم اورخارجی دنیا کی تفصیلات زیادہ ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں لکھے گئے اکثر اُردو سفرنامے خارجیت سے مملو ہیں اور سفرنامہ کم اور ’’ٹورسٹ گائیڈ ‘‘ یعنی معلوماتی سیاحتی کتابچہ زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ البتہ سرسید احمد خان، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور منشی محبوب عالم کے سفرناموں میں کسی حد تک تخلیقی فضا اور فکر انگیز عنصر ملتا ہے۔
یہاں پیش کی گئی فہرست میں ایسے سفرنامے آپ کو زیادہ ملیں گے جن میں ایک بچے کا تحیر، ایک سیاح کا اضطراب و تجسس اور ایک آزاد پنچھی کی وارفتگی بحصۂ وافر موجود ہیں اور اسی لیے اُردو کے ابتدائی دور کے سفرنامے اس فہرست میں کم ہی شامل ہوسکے ہیں۔ اس فہرست کو ترجیح کے لحاظ سے نہیں بلکہ تاریخِ اشاعت کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے۔ ان میں سے بیش تر سفرنامے اُردو سفرنامے کی تاریخ کے اہم سنگ میل ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اس نوعیت کے انتخاب نہ تو حتمی ہوتے ہیں اور نہ ان پر ہر قاری متفق یا مطمئن ہوسکتا ہے بلکہ ہر قاری اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق ایسی فہرست بنا سکتا ہے یا ایسی فہرستوں میں تبدیلیاں کر سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر مقبول کتاب ’’بہترین‘‘ میں شمار کیے جانے کے قابل ہو۔ اسی طرح ہر بہترین کتاب کا ’’مقبول‘‘ ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ کرنل محمد خان کے بقول کسی چیز کی مقبولیت اس کی معقولیت کی لازمی دلیل نہیں ہوتی۔
1۔ مسافر کی ڈائری (1940ء):
خواجہ احمد عباس کا سفرنامہ ”مسافر کی ڈائری‘‘ اُردو سفرنامے کی تاریخ کا وہ پہلا سنگِ میل ہے جس نے اُردو سفرنامے کو داخلیت اور خارجیت کے امتزاج سے آشنا کیا۔ اگرچہ خواجہ احمد عباس اشتراکیت سے اپنی گہری وابستگی کو کہیں بھی بھلا نہیں سکے ہیں اور بعض مقامات پر ان کا انداز صحافیانہ ہوگیا ہے۔ اس کی ایک وجہ سفرنامے کو ڈائری کے انداز میں لکھنا بھی ہے۔ کہیں سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو پیش کرتے ہوئے تلخ بھی ہوگئے ہیں لیکن اس سفرنامے میں تاثرات اور داخلی کیفیات کی موجودگی اور بے ساختہ انداز نے اسے ایک مختلف اور جدید انداز کا سفرنامہ بنا دیا ہے۔
2۔ نظر نامہ (1958ء):
محمود نظامی کا سفرنامہ ’’نظر نامہ‘‘ بجا طور پر اُردو کا وہ پہلا سفرنامہ کہا جاتا ہے جس نے اُردو سفرنامے میں نہ صرف خارجیت سے ساتھ داخلیت کو آمیخت کیا بلکہ سفرنامے میں صحافیانہ انداز کی بجائے ادیبانہ اسلوب بھی پیدا کیا۔ محمود نظامی نے شہروں کی تاریخ اور جغرافیہ بیان کرنے کے ساتھ ان کی روح کو بھی سمجھنے کی کوشش کی، ظاہری آنکھ سے مشاہدہ کرنے کے علاوہ باطن کی آنکھ سے بھی شہروں اور ملکوں کو دیکھا۔ وہ چشمِ تصور کی مدد سے ماضی کے جھروکوں میں جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور تاریخی ادوار میں جھانک کر واپس آتے ہیں تو اپنے اردگرد کے ماحول میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا پرتَو نہ پا کر اداس ہوجاتے ہیں۔
3۔ دنیا میرے آگے (1963ء):
اگرچہ جمیل الدین عالی کا یہ سفرنامہ 1975ء میں کتابی صورت میں آیا لیکن اس کا آغاز 1963ء میں ہوگیا تھا جب یہ ’’جنگ‘‘ (اخبار) میں قسط وار چھپنا شروع ہوا۔ اس میں عالی صاحب کا انداز ہلکا پھلکا اور بے ساختہ ہے جو اس میں دل چسپی پیدا کرتا ہے بلکہ اس میں خارجیت اور داخلیت کا امتزاج وہ انداز ہے جس کو بعد میں بعض دیگر سفرنامہ نگاروں نے اپنایا یعنی کہیں کہیں شعور کی رَو کی تکنیک کا افسانوی انداز میں استعمال اور کبھی کبھی فلسفیانہ خود کلامی۔
جمیل الدین عالی بنیادی طور پر شاعر تھے اوراختر الایمان کے الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ انھیں حسن سے بھی لگاؤ ہے، انھیں زندگی بھی عزیز ہے۔ لیکن انھیں علم کی جستجو بھی چین نہیں لینے دیتی تھی اور فلسفہ و سائنس بھی دامن کھینچتے تھے۔ چنانچہ عالی جی کے سفرناموں میں شعر وادب کے ساتھ دنیا کی رعنائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ قاری کے لیے معلومات بھی پیش کرتے ہیں لیکن قاری کو اپنی داخلی کیفیات سے بے دھڑک آگا ہ بھی کرتے جاتے ہیں۔
4۔ دھنک پر قدم (1969ء):
محمود نظامی اور جمیل الدین عالی کی طرح بیگم اختر ریاض الدین کا نام بھی اُردو سفرنامے کی تاریخ کاایک اہم سنگ میل ہے۔ ان کے پہلے سفرنامے’’سات سمندر پار‘‘(1963ء) کا ادبی دنیا میں شان دار استقبال ہوا تھا اور اس کی وجہ مصنفہ کے اسلوب کی تازگی تھی۔ ان کا دوسرا سفرنامہ ”دھنک پر قدم‘‘ بھی اس اسلوب کی وجہ سے مقبول ہوا۔ بے ساختگی، شگفتگی اور بے تکلفی سے بات کہہ دینے کا انداز بالکل منفرد ہے۔ سفر ان کے لیے مسرت کشید کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس میں وہ قاری کو بھی شریک کرلیتی ہیں۔ مناظرِ قدرت اور حسنِ فطرت ان کو مسحور کردیتے ہیں اور ان کو بیان کرنا بھی انھیں خوب آتا ہے۔
5۔ دُنیا گول ہے (1972ء):
شاعر، کالم نگار اور مزاح نگار ابن انشا نے اُردو سفرنامے میں ایک نیا ذائقہ متعارف کرایا اور وہ تھا طنز و مزاح۔ ان کے سفرنامے ’’جنگ‘‘ (اخبار) میں شائع ہوتے رہے اور بعد ازاں کتابی صورت میں اشاعت پذیر ہوئے لیکن ان کا انداز صحافیانہ نہیں ادبی ہے۔
یوں تو انشاء جی کے کئی سفرنامے ہیں اور سب اپنے رواں اسلوب اور شگفتہ انداز کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے البتہ ”دنیا گول ہے‘‘ میں ان کی شگفتگی، بے ساختگی، روانی اور ایک سیاح کی سرشاری اپنے عروج پر ہے۔ محاوروں اور ادبی استعارات کی وجہ سے گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ ابن انشا کی وجہ سے اُردو سفرناموں کا اسلوب بدل گیا اور ان میں شگفتگی کو ایک ضروری عنصر سمجھا جانے لگا۔
6۔ نکلے تیری تلاش میں (1972ء):
مستنصر حسین تارڑ اور اُردو سفرنامہ اب لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ ہی سے دھوم مچادی تھی۔ان کے اندر ایک سیاح کی بے چین روح اور ایک ازلی آوارہ گرد کا اضطراب ہے جو انھیں سچا مسافر بناتا ہے، ایک ایسا مسافر جو منزلوں سے پرے نکل جاتا ہے کیوں کہ اس کا سفر اکثرکسی مقصد کے لیے نہیں ہوتا اور وہ کسی مقررہ منصوبے کے تحت سفر نہیں کرتا۔
یہی اصل سیاحت ہے۔ اگرچہ ان پر اعتراضات بھی بہت ہوئے کہ وہ خود کو ہیرو بنا لیتے ہیں جس کی راہ میں ہر ملک کی خواتین آنکھیں بچھاتی ہیں لیکن اس میں مبالغہ ذرا زیادہ کیا گیا ہے۔ تارڑ کے اس پہلے سفرنامے نے اُردو سفرناموں میں تخیل اور افسانوی رنگ کا اضافہ کیا۔ ان کے ہاں بعض کردار افسانوی معلوم ہوتے ہیں بلکہ تخیل کے وفور کی وجہ سے اس سفرنامے کے بعض ابواب کو ’’مختصر افسانے‘‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔
7۔ شوقِ آوارگی (1972ء):
عطاء الحق قاسمی بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں اور ان کے اس سفرنامے میں ان کا یہ رنگ نمایاں ہے۔ یہ سفرنامہ احمد ندیم قاسمی کے رسالے ’’فنون‘‘ میں 1972ء سے قسط وار شائع ہونا شروع ہوا اور اس نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔ بعدازاں کتابی صورت میں چھپا۔ ”شوقِ آوارگی‘‘ میں مغربی اورامریکی معاشرے کی اخلاقی خرابیاں اور بے راہ روی دکھاتے ہوئے قاسمی صاحب کے قلم نے کہیں کہیں زیادہ ہی شوخی کا مظاہرہ کیا ہے۔
8۔ بسلامت روی (1975ء):
کرنل محمد خان کی پہلی کتاب ایک دھماکے کے ساتھ ادبی منظر نامے پر طلوع ہوئی اور وہ راتوں رات مشہور ادیب بن گئے۔ ان کی پہلی کتاب ”بجنگ آمد‘‘ تھی جس میں انھوں نے بقول شخصے پہلی جنگ عظیم کا ذکر اس طرح کیا ہے جیسے پکنک منارہے ہوں۔ اسی افتادِ طبع کے ساتھ ان کا سفرنامہ ”بسلامت روی‘‘ شائع ہوا۔ ناہمواری سے لطف اندوز ہونا اور ناگوار کو گوارا بنانا کرنل صاحب کے مزاج اور مزاح دونوں کاخاصہ ہے۔ یہی کیفیت اس سفرنامے میں بھی نظر آتی ہے۔ خوب صورت زبان اور فارسی تراکیب کے ساتھ شگفتہ تبصرے اور ادبی پس منظر کتاب کو یادگار بناتے ہیں۔
9۔ سفر نصیب (1981ء):
مختار مسعود کے اس سفرنامے کے دوحصے ہیں بلکہ تین کہنا چاہیے۔ پہلے حصے میں اندرون ملک کے سفرنامے ہیں اور دوسرے حصے میں بیرون ملک کے۔ آخر میں ایک شخصی خاکہ اس شخص کا ہے جس نے انھیں سفر کرنے اور دنیا دیکھنے کی تلقین کی تھی۔ مختار مسعود کی نثر ایک خاص مزاج اور اسلوب کی حامل ہے۔ یہ اسلوب اس سفرنامے میں بھی پوری طرح نمایاں ہے۔ اس میں ایک ادبی شان بھی ہے۔
وہ خارج میں سفر کرنے کے ساتھ داخل میں بھی سفر کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نیم فلسفیانہ انداز میں استخراجِ نتائج بھی کرتے جاتے ہیں۔ لیکن علی گڑھ کو کبھی نہیں بھولتے اور ماضی کی داستانیں اپنے قومی تفاخر لیکن احساسِ زیاں کے ساتھ سناتے جاتے ہیں۔ دھیمے انداز میں لکھی گئی یہ کتاب بہت سکون سے اور دھیرے دھیرے پڑھنے کے لیے ہے، صرف اسی صورت میں اس کا سحر آپ کو جکڑے گا۔
10۔ سفر در سفر (1981ء)
اشفاق احمد اُردو افسانے کا معتبر نام ہے۔ انھیں داستاں طرازی میں ملکہ حاصل تھا۔ حالات سے سبق اور واقعات سے دانش کشید کرنا ان کا فن تھا۔ اس عمل میں وہ اکثر خارج کی دنیا سے نکل کر اپنے داخلی جہان میں ماضی کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ ان کا سفرنامہ ’’سفر در سفر‘‘ اسی طرح کا سفر ہے جس میں انھوں خارج میں جسمانی سفر تو کم کیا ہے لیکن باطن میں ذہنی سفر زیادہ کیا ہے۔ وادیٔ کاغان اور جھیل سیف الملوک کے سفر میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ انھوں نے ماضی کی عجیب، پراسرار اور دل چسپ داستانیں چھیڑی ہیں اورطویل ذہنی سفر کے بعد وقفے وقفے سے جسمانی سفر کی طرف پلٹے ہیں۔
ان کے ہم سفر ممتاز مفتی جیسے اہلِ قلم اور اہلِ علم تھے جن کی بذلہ سنجی سفرنامے میں مزاح کے رنگ بھی بکھیرتی جاتی ہے۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، اس میں ایک خارجی سفر کے اندر کئی داخلی سفر ہیں۔ سفرنامے میں خارجیت کی فراوانی اگر ایک انتہا ہے تو دوسری انتہا داخلیت کا وفور ہے جس کی مثال یہ سفرنامہ ہے۔
(روزنامہ جنگ)