کتب بینی ایک نہایت مفید مشغلہ ہے۔ یہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت مؤثر نسخہ ہے۔ صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف ”الجاحظ‘‘ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:
”کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔‘‘
پڑھنے کے کئی فائدے ہیں:
* پڑھنے سے غم اور بے چینی دور ہو جاتی ہے۔
* پڑھنے کے دوران انسان جھوٹ بولنے اور فریب کرنے سے بچا رہتا ہے۔
* پڑھنے کی عادت کی وجہ سے انسان کتاب میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ سستی اور کاہلی سے مغلوب نہیں ہونے پاتا۔
* پڑھنے سے فصاحت و بلاغت کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔
* پڑھنے سے ذہن کھلتا ہے اور خیالات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔
* پڑھنے سے علم میں اضافہ، یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے۔
* پڑھنے والا دوسروں کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنفین کا ذہنی طور پر ہم سفر بن جاتا ہے۔
* پڑھنے والا اوقات کے ضیاں سے محفوظ رہتا ہے۔
* پڑھتے رہنے سے لکھنا بھی آ جاتا ہے اور جو لوگ پہلے سے لکھنا جانتے ہیں ان کی تحریر میں مزید شگفتگی پیدا ہو جاتی ہے۔
اگر ایک شخص روزانہ ایک گھنٹہ مطالعہ کرے اور ایک گھنٹہ میں 20 صفحات کا مطالعہ کرے تو ایک ماہ میں 600 صفحہ کی کتاب پڑھ سکتا ہے اور ایک سال میں 7200 (سات ہزاردوسو) صفحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ بالفرض ایک شخص کی عمر 65 سال ہو اور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر 25 سال کی عمر میں مطالعہ شروع کرے اس طرح وہ 40 سال مطالعہ کرے گا اور اس مدت میں 224988000 (دو لاکھ اٹھاسی ہزار) صفحات پڑھ ڈالے گا، اوسطاً اگر ایک کتاب 80 صفحہ کی ہو تو اس دوران 3600 کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ ذرا اندازہ کیجیے اتنی کتابوں کے مطالعہ کے بعد آپ کے علم اور معلومات کی کیفیت کیا ہوگی؟ اور اس علم کا آپ کی اپنی ذات کو، آپ کے بچوں کو کس قدر فائدہ ہوگا۔ ملک و ملت کا جو فائدہ ہوگا وہ الگ ہے۔
امریکا کی رش یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق وہ بزرگ افراد جو مطالعے یا ذہنی آزمائش کے کھیل جیسے شطرنج یا معمے وغیرہ کو اپنا معمول بنالیتے ہیں ان میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے الزائمر امراض کا خطرہ ان سرگرمیوں سے دور رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں ڈھائی گنا کم ہوتا ہے۔ محقق کرسٹل رسل اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ مطالعہ آپ کا ذہنی تناؤ ختم کرکے آپ کی پُرسکون فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے۔ اچھی کتاب پڑھنے سے آپ کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور سوچنے کی صلاحیتوں میں بہتری آتی ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی آف بفالو کی تحقیق کے مطابق فکشن بُکس پڑھنے سے دوسروں کی نفسیات کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے اور آپ بہ آسانی اپنے مخاطب کے احساسات اور جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگر ہر گذرتے دن کے ساتھ ہمارے ہاں یہ شوق ماند پڑتا جارہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کتاب پڑھنے کا رجحان پہلے ہی کم تھا اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے مزید کم ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان نسل لائبریریوں کی جگہ گیمنگ زون اور ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائل فونز، ٹیبلیٹ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ تھامے نظر آتی ہے۔ اگرچہ نجی سطح پر کتب میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، تاہم ان میلوں میں بھی نوجوان کتابیں خریدنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ”کتاب بہترین دوست ہے‘‘ کی پرانی کہاوت کو ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے تبدیل کرکے ”موبائل فون بہترین دوست‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے، اور وہ نوجوان جو پہلے اپنا وقت کتب بینی میں گزارتے تھے اب وہی وقت جدید آلات اور انٹرنیٹ پر سرفنگ میں ضائع کر رہے ہیں۔
گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں بیالیس فیصد کتب بین مذہبی، بتیس فیصد عام معلومات یا جنرل نالج، چھبیس فیصد فکشن اور سات فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ گیلپ پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے ایک اور سروے کے مطابق ملک میں 39 فیصد پڑھے لکھے افراد کتابیں پڑھنے کے دعوے دار ہیں جب کہ 61 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ کتابیں نہیں پڑھتے۔ پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کے لیے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کے لیے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کتب بینی کے رجحان میں کمی کا ایک اہم سبب ہمارا تعلیمی نظام اور تدریسی نظام کی دن بہ دن گرتی ہوئی صورت حال ہے۔ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی سے تعلیم کی شرح میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن اس کی بدولت کتب بینی کی شرح بھی گرگئی ہے۔
ہر سال 23 اپریل کو عالمی یوم کتاب منایا جاتا ہے۔ دنیا میں سو سے زیادہ ممالک میں کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے. اس دن کا مقصد کتاب بینی کے شوق کو فروغ دینا اور اچھی کتابیں تحریر کرنے والے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ عالمی یوم کتاب کے موقع پر بک سیلرز اور پبلشرز کتابوں پر زیادہ رعایت دے کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہت ساری کتابیں مفت بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں میں لکھنے پڑھنے کا ایک غیر معمولی ذوق پیدا کر دیا تھا۔ یہ ذوق مذہب کے پس منظر میں پیدا ہوا تھا۔ مگر ایک بار پیدا ہوگیا تو صرف مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ علم کی تمام شاخوں تک پھیل گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزار برس تک مسلمان دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ مسلمانوں کا زوال بھی جس واقعہ سے شروع ہوا وہ یہی تھا کہ بغداد اور سپین میں مسلمانوں کی کتابوں کے ذخیرے یا تو جلا دیے گئے یا پھر مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ یہی کتابیں یورپ پہنچیں تو وہ آنے والے دنوں میں دنیا کے حکمران بن گئے۔ آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔ کیوں کہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں اورجس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہو جائے وہاں علم کی پیداوار بھی ختم ہوجاتی ہے۔ جس قوم میں علم نہ ہو اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
(دلیل)