مطالعہ کتب ہمارے لیے سانس کی طرح ضروری ہے. کتابیں ہمیں زندہ رہنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں. انسان زندگی گزارنے کے لیے دوستوں کا سہارا لیتا ہے. یہ دوست ملتے ہیں پھر چھڑ جاتے ہیں. زندگی کے سفر میں سب سے مخلص دوست ”کتاب‘‘ ہے. کتاب اور انسان لازم و ملزوم ہیں. تاریخ گواہ ہے کہ خیالات کی جنگ میں کتابوں نے ہتھیاروں کا کام انجام دیا کیوں کہ کتابیں تجربات محفوظ کرتی ہیں. کتاب مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور اچھی کتابوں کا بغور مطالعہ انسان کو زندہ دل اور رکھتا ہے. کتابیں کسی تخلیق کار کے حسن تخیل کا شاہکار نہیں ہوتیں بلکہ کتابیں زبان رکھتی ہیں، کتابیں بولتی ہیں، کتابیں ایک مرکز پر رکنے کے بجائے بہتر سے بہتر سفر کا باعث بنتی ہیں. کتابوں سے تنقیدی شعور بڑھتا ہے. کتابیں تحقیق و تنقید کا راستہ ہموار کرتی ہیں. کتابوں کی وجہ سے گمنام شاعر و ادیب ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید رہتے ہیں. کتابیں ایک آئینہ ہیں جن سے ماضی کے حالات و واقعات، حال میں پڑھے جاتے ہیں جو مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ہمارے معاون ثابت ہوتے ہیں.
بحیثیت مسلمان ہمارے لیے سب سے بڑی کتاب قرآن پاک ہے. یہ قرآن پاک ہمارے لیے نعمت عظمٰی اور کامیابی و کامرانی کی دلیل ہے. کتاب علم و آگہی کا خزینہ ہے. علم کے بارے میں جتنا کچھ کہا جائے اتنا کم ہے کیوں کہ عرش سے فرش تک کا احاطہ صرف علم کے ذریعے ہی ممکن ہے. یہ علم ہے جو خشکی میں بھی پھول اُگاتا ہے. جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے. اللہ اور بندے کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے. یہ علم سمندر کی مانند ہے.
عظیم لوگ وہ ہیں جو اپنے معاملات میں کتاب سے رابطہ رکھتے ہیں.فارغ وقت میں ان کا کتابوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے. کتاب زندگی کی وہ رفیق ہے جو ہمہ وقت شفیق رہتی ہے. اچھی کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی، ہمدرد، خیرخواہ اور سکون کا باعث بنتی ہے. ایک اچھا دوست اور اچھی کتاب ناقابلِ فراموش ساتھی ہیں. زندگی گزارنے کا بہترین سلیقہ کتب بینی سے حاصل ہوتا ہے.
کتب بینی، ذہنی ارتقاء کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے. اچھی کتاب طالب علم کی انگلی پکڑ کر اسے تسخیرِ کائنات کے گرد گھوماتی ہے. اسے اچھائی برائی کی تمیز سکھاتی ہے.کتاب ماضی سے رشتہ جوڑ کر حال بہتر بنانے اور مستقبل میں جھانکنے کا سلیقہ سکھاتی ہے. مذہبی کتب انسان کو روحانی سکون مہیا کرتی ہیں. عبادات اور ریاضت کا سفر آسانی سے طے کرنے کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے. ہر انسان اپنے کردار و عمل سے پہچانا جاتا ہے. اخلاقی اقدار کا منبع اچھی کتب ہیں.
بچوں کا ذہن ایک صاف شفاف کاغذ جیسا ہوتا ہے. اچھی کتب سے بچوں کی کردار سازی آسانی سے کی جا سکتی ہے. آج انٹرنیٹ اور موبائل نے طالب علموں کو کتب بینی سے دور کر دیا ہے. اہل مغرب نے ہماری کتب سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہیں طے کی ہیں. ہم کتابوں سے دور ہوئے تو علم سے دور ہوگئے. ڈاکٹر علامہ اقبالؒ افسوس کرتے ہیں:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
ہماری عظمتِ رفتہ ہماری کتب میں مقید ہے. مطالعہ کتب سے ہم اپنی عظمتِ رفتہ کو آواز دے سکتے ہیں. عصرِ حاضر میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان کا حل اچھی کتابوں کے مطالعہ میں مضمر ہے. اچھے اخلاق، اچھے کردار اور نیک اعمال کا فروغ کتب بینی میں محفوظ ہے. ہمارے ایمان کا حصہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں. ہمیں اپنی اس کتاب کے مطالعے کا حق ادا کرنا چاہیے. یہ ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی کی تاریکیوں کا سینہ چاک کرکے راستوں کو منور کرتی ہے.
کتاب ایک اچھے انسان کی شخصیت کا لباس ہے. وہ اپنی شخصیت کا نکھار مطالعہ کتب سے حاصل کرتا ہے. ایک کتاب کا مطالعہ انسان کو تنہائی سے آسمانوں پر اُڑنا سکھاتا ہے. وہ لفظوں کی وجہ سے زندگی کا سرور حاصل کرتا ہے. کتاب حقیقت سے ہٹے ہوئے طالب علموں کو منزلِ مقصود کا پتا دیتی ہے. اگر آج کا طالب علم قیامِ پاکستان سے متعلق کتب کا مطالعہ کرے تو اسے احساس ہوگا کہ پاکستان حاصل کرنے کے لیے کن کن مراحل سے گزرنا پڑا. ایسی کتب اسے جذبہ حبُ الوطنی، انسان دوستی اور اپنے مشاہیر سے عقیدت کا درس دیں گی. طالب علموں کو سچا مسلمان اور کھرا پاکستانی بنانے کے لیے والدین اور اساتذہ کو کتب بینی کی تبلیغ کرنی چاہیے.
دنیا کے کئی ممالک میں طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی کتاب ایک ہفتہ میں مکمل کرے. انگلستان میں 15 گھنٹے روزانہ مطالعہ کیا جاتا ہے. جاپان اور کینیڈا میں ہر طالب علم کے لیے لازمی ہے کہ وہ کم از کم ایک کتاب کے پندرہ صفحات کا روزانہ مطالعہ کرے. مگر افسوس ہے کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں اس قسم کی پابندی نہیں ہے. آج طالب علم موبائل اور انٹرنیٹ کے منفی استعمال کی وجہ سے کتابوں سے دُور اور فلمی دنیا کے نزدیک جا رہا ہے. نِت نئے موبائلز نے علم دوستی سے کہیں زیادہ ثقافتی دوستی کا راستہ ہموار کیا ہے. ہمارے تعلیمی نتائج نہایت مایوس کن ہیں. صلاحیتوں کے اعتبار سے ہمارے طالب علم دنیا کے کسی بھی ملک کے طالب علموں سے کمتر نہیں ہیں.
اگرہمیں تعلیمی دوڑ میں ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرنا ہے تو کتابوں سے سچی دوستی آج کی اہم ضرورت ہے. طالب علموں کو تعلیمی ادارہ کی لائبریریوں سے استفادہ کرنا چاہیے. کتاب کے چند صفحات کا مطالعہ ہمارے لیے ذہنی غذا کا باعث ہوگا. نصابی کتب کے علاوہ ”ہم نصابی کتب‘‘ سے امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل ہو سکتی ہے. اللہ تعالٰی ہمیں کتابوں سے دوستی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
(ملی واخلاقی مضامین، جولائی 2018ء، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد)
شاعر، ادیب اور محقق پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم سرگودھا سے تعلق رکھتے ہیں. آپ 2 اکتوبر 1955ء کو پیدا ہوئے. اُردو، سیاسیات، اسلامیات اور تاریخ میں ایم اے کیا. اقبالیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ پنجاب، لاہور سے پی ایچ ڈی مکمل کی. آپ 12 مارچ 1981ء سے یکم اکتوبر 2015ء تک اُردو کے استاد رہے اور بہ حیثیت صدر شعبہ اُردو، گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج، سرگودھا سے بیسویں گریڈ میں ریٹائر ہوئے.
آپ کی علمی، ادبی و تاریخی کتب کی تعداد 118 اور نصابی کتب کی تعداد 27 سے زیادہ ہے جن میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران شائع ہونے والی چار کتب ”آسودہ خاک! انمول ہستیاں‘‘، ”پیوند خاک… ادبی ستارے‘‘، ”حکمتِ بالغہ میں اقبالؒ شناسی‘‘ اور ”دُرِ نایاب‘‘ بھی شامل ہیں. کورونا لاک ڈاؤن کے دوران بیک وقت چار قیمتی کتب کی اشاعت ایک اہم ادبی کارنامہ ہے.