ذیل میں شہیدِ پاکستان، ممتاز دانشور، سفرنامہ نگار، سابق گورنر سندھ، حکیم محمد سعیدؒ شہید کے فرمودات درج کیے جا رہے ہیں.
• کیا یہ عجیب و غریب حقیقت نہیںہے کہ اکثر و بیش تر حالات میں انسان کی فطرتِ عالیہ تاریک پہلو پہلے دیکھتی ہے. شاید روشنی کی چکا چوند شروع میں بے برداشت ہوا کرتی ہے.
• ہر دین اور مذہب نے اخلاق زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر بے چارہ اخلاق آندھیوںمیں چراغ کی لو ہے.
• جس طرح ایک مسلمان کے دل میں طمع اور تقویٰ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اسی طرح علم و حکمت اور دولت ساتھ نہیں رہ سکتے.
• عالمِ عرب و اسلام میں جمود کا ایک نہایت اہم سبب وہ دولتِ فراواں ہے کہ جو ان کو بغیر محنت کے حاصل ہوئی ہے.
• آزادیٔ صحافت کے ہرگز یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ تعمیرِ وطن نظروں سے اوجھل ہو جائے اور سربلندیٔ ملک اور سرفرازیٔ ملت نظر انداز کر دی جائے.
• پاکستان کے استحکام و بقا کے حوالے سے مایوسی کو عام کرنا ہمارا سب سے بڑا سماجی جرم ہے.
• علم تمہاری تلوار اور کتاب تمہاری ڈھال ہے.
• فکر و جذبات جب الفاظ کا پیکر اختیار کرتے ہیں تو اسے شعروادب کہا جاتا ہے.فکر و جذبات جب عمل کی صورت میں ڈھلتے ہیں تو مقصدِ حیات ہو جاتے ہیں.
• تاریخ میں جب تعصب یا طرف داری کی ملاوٹ ہو جاتی ہے تو پھر وہ تاریخ نہیں رہتی، افسانہ بن جاتی ہے.
• تنقید کے معنی یہ ہیں کہ اچھائی اور برائی دونوں کا دیانت داری سے جائزہ لیا جائے.
• اگر پاکستان میں کروڑوں نونہالوں کے لیے مسجد، سکول قائم کرانے میں مجھے کامیابی ہو گئی تو یہ میری زندگی کا حاصل ہو گا.
• جب زندگی کا عنوان مقصدیت ہوتا ہے تو دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے.
• خواہشات جب شدید تر ہو جاتی ہیں تو حوادث جنم لیتے ہیں.
• جب انسانیت مفقود ہو جاتی ہے، دیانت روٹھ جاتی ہے، صداقت دم توڑ دیتی ہے تو پھر انسان کی انسانیت تحلیل ہو جایا کرتی ہے.
• پاکستان میں ایک فکری انقلاب برپا ہونا چاہیے. ایسا فکری انقلاب کہ جس میں تعلیم و تربیت کو مقامِ اولیٰ حاصل ہو.
• تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم فسادِ اخلاق میں مبتلا ہو گئی وہ صفحہء ہستی سے مٹ گئی.
• ایک غلط کام کر کے انسان بہ ظاہر کتنا ہی خوش ہو، اس کا ضمیر اندرونی طور پر اس کو متنبہ ضرور کرتا ہے. جب یہ کیفیت ملامت کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو اس سے نظامِ جسم ضرور متاثر ہوتا ہے.
• اپنی شناخت اور اپنے سرمایہ ثقافت کو نظر انداز کر کے ہم علم کے نام پر جو کچھ بھی حاصل کریں گے، اس کے مثبت نتائج کبھی برآمد نہیں ہو سکتے.
• مقصدِ حیات کا تعین کرنا چاہیے اور پھر اس میدان میں جدوجہد کو رہنما بنا کر اور سعیٔ پیہم کو اختیار کر کے ثبات کے ساتھ اقدامات کرنے چاہیئیں.
• خدمتِ خلق کا مرتبہ بلند نفیٔ ذات کے بغیر ممکن نہیں.
• علم کا تعلق فقط لوازمِ حیات سے نہیں ہے، مقاصدِ حیات سے بھی ہے.
• ناقدریٔ وقت سے غلامی کی زنجیریں پیروں میں پڑ جایا کرتی ہیں.
• فطرت اپنے انصاف کے ترازو میں جھوک اور جھول برداشت نہیں کر سکتی. جو لوگ اس میں جھوک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود ٹوٹ جاتے ہیں.
• انسان خود ٹھوکریں کھاتا ہے مگر کچھ سبق حاصل نہیں کرتا. تاریخ بے چاری ہے کہ اپنا سبق دھرائے جا رہی ہے.
• تعلیم ایک ارتقائی عمل ہے جس کے ذریعے اقوام و اُمم اپنے مقصدِ حیات سے آگاہ ہو کر اس کے حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتی ہیں.
• مسللمان کی حیاتِ مستعار کا ہر لمحہ قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں بسر ہونا چاہیے اور اور اس کی ہر آن کو اتباعِ سنتِ رسول ﷺ سے عبارت ہونا چاہیے.
• دولت کی بے پناہ محبت خباثت کی دلیل ہے اس لیے کہ یہ ہمیشہ برائی کی طرف لے جاتی ہے.
• قومیں اور افراد، چراغِ حریت اپنے خون سے روشن رکھتے ہیں.
• انسان جب بھی اپنی ذات کے لیے اضافی آرام و آسائش حاصل کرنے کا خواہاں ہو گا، اسے خودی اور خودداری کو قربان کرنا پڑے گا.
• روشن ضمیری صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو روشنی میں رکھتی ہے.
• دنیا میں بد امنی کا نہایت جلی عنوان عدل و انصاف کی عدم فراہمی ہے.
• جس طرح سورج ہر انسان کو بلا امتیاز اپنی روشنی سے منور کرتا ہے اسی طرح ایک انسان کو دوسرے انسان کو روشنی دینا چاہیے.
• جو قومیں اپنی قومی زبان سے غافل ہوتی ہیں اور جو ملک غیروں کی زبان اختیار کرتے ہیں، وہ یقیناً اپنی انفرادی شناخت اور شان کھو بیٹھتے ہیں.
• وہ تمام مسلمان بے چین رہتے ہی جو صبح کی خاموشی میں اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ نہیں جوڑتے.
• مجھےیقیناً ایک حقیر انسان قرار دے کر اطمینان ضرور حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر حقیر و غریب انسان ہی سچ بات بے خوفی سے کہہ دیا کرتے ہیں. آج میں نے ایک بار پھر حق کی صدا دی ہے.
ص56
نام کتاب: اقوالِ سعیدؒ، مرتب: رفیع الزماں زبیری، ناشر:فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، کراچی، اشاعت: مئی 1999ء
“اقوالِ سعیدؒ” ایک تبصرہ
تبصرے بند ہیں