حسنین نازشؔ نہایت زیرک، کہنہ مشق اور علم و ادب پر دسترس رکھنے والا ترقی پسند، روشن خیال اور جواں سوچ و فکر کا حامل ادیب، شاعر اور افسانہ نگار ہے۔ وہ جب بھی کوئٹہ آتا ہے تو مجھ سے ملے بغیر نہیں جاتا۔ اُس کا یہی دوستانہ پن مجھے اُس سے باندھے رکھتا ہے۔ ہماری ڈوری کا سرا ایک ہی جگہ آ ملتا ہے جہاں ادب، ادبی مباحثہ، علمی بحث اور کتابوں کے ذکر کے علاوہ دوسرا کوئی اور موضوع نہیں ہوتا۔ وہ بلا کا سفرنامہ لکھتا ہے۔ اُ س کا کوئی بھی سفر نامہ پڑھ لیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی سنگ لیے پھر رہا ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں میں حسنین نازشؔ کے ساتھ نیویارک کی سیر کر آیا ہوں۔ اُس کی نئی کتاب ”امریکا میرے آگے‘‘ میرے زیرِ مطالعہ ہے اور میں اُس کے ساتھ نیویارک کے مشہور ایئر پورٹ ”جان ایف کینیڈی‘‘ کی شاندار اور پُر شکوہ عمارت سے باہر آ چکا ہوں۔
میں حسنین نازشؔ کا سفر نامہ ”امریکا میرے آگے‘‘ پڑھ کیا رہا ہوں، میں تو خود اُس کے ساتھ امریکا پہنچ گیا ہوں۔ حسنین میرے ساتھ ہے. ہم ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے نیو یارک کی سیر کر رہے ہیں۔ حسنین کبھی میرے بازُو اور پہلو کے مابین اپنا بازُو حائل کر دیتا ہے اور کبھی اپنا ہاتھ میرے شانے پر دھرے ”جیکسن ہائیٹس‘‘ لے آتا ہے۔ یہ علاقہ پورے کا پورا لاھور کی طرز پر تھا۔ یہاں بہت مرد و زن پاکستانی لباس میں نظر آرہے تھے۔ کئی خواتین نے حجاب اوڑھ رکھے تھے اور بعض عورتوں نے ساڑھیاں پہن رکھی تھیں۔ یہ جیکسن ہائیٹس کی 74 نمبر سٹریٹ تھی۔ حسنین کہ رہا تھا ”شیخ فرید یہ امریکا کا وہ علاقہ ہے جہاں مشرقی ممالک اور برصغیر کے لوگوں کی بہت بڑی آبادی رہائش پذیر ہے۔‘‘ حسنین نازشؔ کی کتاب ”امریکا میرے آگے‘‘ اب بھی میرے ہاتھوں کی رحل پر دھری ہے۔ یہ نیویارک کی پہلی صبح تھی حسنین مجھے بتا رہا تھا ”فرید بھائی! امریکا دنیا کا سپر پاور ملک ہے. یہاں دنیا بھر کے کام الصبح شروع ہوتے ہیں۔ یہاں 95 فیصد لوگ صبحِ صادق یعنی 5 بجے بیدار ہو جاتے ہیں۔ رات کا کھانا 7 بجے کھا کر سو جاتے ہیں اور خوش و خرم کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔‘‘ ہمیں اسلام صبح نمازِ فجرکی ادائیگی، جلد بیدار ہونے کا درس دیتا ہے اور رات کو جلدی سونے کا حکم ہے۔ مگر ہماری قوم دس بجے تک خوابِ غفلت میں پڑی رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی آفس ٹائم پر نہیں کھلتا، دفاتر میں کام کرنے والے وقت پر نہیں آتے اور مارکیٹس، شاپنگ مال گیارہ بجے سجتے ہیں کیوں کہ ہم رات بارہ بجے سے پہلے سونا اپنے سٹیٹس کے برخلاف سمجھتے ہیں۔
”مین ہیٹن‘‘ نیویارک کا سب سے شاندار، پُر رونق اور بلند و بالا عمارتوں سے گھرا علاقہ ہے۔ یہاں فلک بوس بلڈنگز کی چوٹیوں کو دیکھنا محال ہے۔ ”امریکا میرے آگے‘‘ میں پڑھ کہاں رہا ہوں؟ میں تو حسنین کے سنگ مین ہیٹن کے پُر ہجوم علاقے میں کھڑا ہوں جہاں کا ہر ایونیو لوگوں کے جمِ غفیر سے اٹا پڑا ہے۔ یہاں لوگ روڈ سگنل کے اشارے پر کسی روبوٹ کی طرح چلتے، رکتے اور حرکت کرتے ہیں۔ یہاں ہر ایک کو جلدی ہے۔
ایک نوکری سے دوسری نوکری تک پہنچنے کی جلدی، ایک بزنس کی ڈیلنگ کے بعد دوسرے کاروبار کی ڈیل کی جلدی، تقریباْ ہر شخص بھاگ رہا ہے۔اِس شہر میں مالیاتی معاملات کو سلجھانے، معاشی و اقتصادی ترقی کی ڈور کو مزید تیز تر کرنے کی جستجوُ کسی کو ٹھہرنے، رکنے، سھنبلنے اور سانس بحال کرنے کی مہلت نہیں دیتی۔
”امریکا میرے آگے‘‘ میں پڑھے جا رہا ہوں۔ گویا حسنین کے ساتھ میں بھی بروکلین برج کے اوپر سے گزر رہا ہوں۔ اِس برج کو پار کرتے ہی ہم ”ہیٹن‘‘ کے مرکز میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بروکلین اِس پار آزادی کا مجسمہ ہے جو بہت دُور سے ہی نظر آجاتا ہے۔ یہاں اونچی عمارات، شاپنگ سنٹرز اور سکائی سکیپرز کثرت سے ہیں. یہاں کی ہر عمارت آسمان کو چھوتی نظر آتی ہے۔
میرے ہاتھوں میں اب بھی حسنین کی کتاب ہے اور میں حسنین کے ساتھ نیویارک کی سیر کر رہا ہوں۔ اب حسنین مجھے ٹائمز سکوائر لے آیا ہے۔ یہاں ٹائمز سکوائر میں 1904ء سے پہلے انڈر ورلڈ اور گینگسٹرز کا سکہ چلتا تھا لیکن اب یہ علاقہ امریکی ثقافت کا آئینہ دار ہے۔
حسنین نازشؔ کی کتاب کے صفحات پلٹتے جاؤ اور امریکا کے نظارے کرتے جاؤ۔ میں بھی یہی کر رہا ہوں۔ اب میں نیویارک میں ”وال سٹریٹ‘‘ پہنچ گیا ہوں۔ حسنین میرے ساتھ ہے۔ ”وال سٹریٹ‘‘ کے شروع ہی میں ہمیں تانبے کا بنا ہوا قوی و قامد دراز و تواناء بھینسا (بُل) نظر آیا جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ یہ بُل وال سٹریٹ کے بلکل درمان میں نصب کیا گیا تھا۔ حسنین کہہ رہا تھا ”شیخ فرید تمہیں معلوم ہے معاشیات اور سٹاک ایکسچینج کی اصلاحات میں بئیر اور بُلش کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ بُل اِس لیے یہاں ایستادہ کیا گیا ہے کہ یہاں ”بُلش‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اپنے مقابل کو بُل اپنے سینگوں پر اٹھا کر نیچے پچھاڑ بھی سکتا ہے۔ سٹاک ایکسینچج میں کمی کا رجحان ہو تو شیئر بیچ دینا گویا ”بُلش‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ عظیم الحبثہ بُل ایک بہت بڑی طاقت، دہشت اور ہر چیز پر برتری حاصل کر لینے کی علامت کے طور پر سجایا گیا تھا اور ”امریکا‘‘ کی طاقت، دہشت اور برتری کا غماز بھی! وال سٹریٹ میں بھانت بھانت کے لوگ آتے اور بھینسے کا دیدار بھی کرتے، خاص کر ہندُو تو اِس کو ”ماتا‘‘ مانتے ہیں، مرد عورتیں اور بچے اِسے عقیدت سے چھوتے، تصاویر بنواتے اِس کے مخصوص حصوں کو بوسے دیتے اور یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ کی قوم کا بچھڑا ہے. وہ بھی بڑے احترام اور عقیدت سے اِسے ہاتھ پھیرتے، پیار کرتے، مرد و زن ان یاد گار لمحوں کو اپنے کیمروں میں محفوظ کر رہے تھے۔ بھینسا بھی اپنی پچھلی ٹانگیں پھیلائے اور اپنی دُم کو اِس انداز سے اُوپر اٹھائے یوئے تھا کہ اُس کے عضوئے مخصوصہ صاف دکھائی دے رہے تھے اور نوجوان لڑکے، لڑکیاں بُل کے بہت قریب آکر مختلف اینگل سے تصویریں بنارہے تھے. کوئی بُل کے سینگ کے ساتھ، تو کوئی اُس کے نیچے بیٹھ کر فوٹو کھینچوا رہا تھا. حد تو یہ کہ بعض حسینائیں شرماتے شرماتے بھینسے کے سنہری فوطوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بھی تصویر کھینچوا رہی تھیں۔ اس بے شرم بُل کے عقب میں طلائی زیورات کی جگمگ کرتی بڑی بڑی مارکیٹس میں سونے، چاندی اور دیگر جواہرات کا لین دین ہو رہا تھا۔ حسنین کی کتاب کے اوراق ایک ایک کر کے پلٹ رہے تھے۔ حسنین اب بھی میرے ساتھ تھا اور میں اُس کی سنگت میں نیویارک گھوم رہا تھا۔
”امریکا میرے آگے‘‘ حسنین نازشؔ کی کتاب لیے ہم نکلے وال سٹریٹ کے اُس حصے کی طرف جہاں جارج واشنگٹن کا مجسمہ تھا. یہاں بہت سے مفلوک الحال لوگ جو اہنے ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے کھڑے تھے، اِن پلے کارڈوں پر جلی حرفوں میں درج تھا:
”Free Hug‘‘
مگر کوئی امریکی اُسے بلا معاوضہ ایک جپھی دینے کو تیار نہ تھا۔ حسنین کو اُس پر ترس آگیا اور اُسے جپّھی دینے لگا۔ مفلوک الحال شخص جس کے بال بڑھے ہوئے تھے، کپڑے بوسیدہ اور پرانے تھے، حسنین کی مفت جپھی سے خوش ہو گیا مگر دوسرے ہی لمحے اپنے بریف کیس سے ایک بیج نکال کر اُسے تھامایا اور بولا:
”Free Hugs Badge, One for One Dollar‘‘
تب حسنین کو معلوم ہوا کہ جپھی مفت نہیں تھی۔ امریکی کوئی کام مفت نہیں کرتے.