ذیل میں نامور دانشور، سفرنامہ نگار، ماہرِ سیاسیات و سماجیات، ممتاز ناشر اور جہاں گرد فرخ سہیل گوئندی کے اقوال درج کیے جا رہے ہیں.
• دانش کے زوال کی بنیاد ہمارے سماج میں تعلیم اور حقیقی جدید تعلیم کا نہ ہونا ہے.
• دانش کے زوال میں صحافت نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے. زوال کے اس سفر میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا، دونوں ہی پیش پیش ہیں.
• جب کسی سماج میں انصاف اور حق کا قتل کر دیا جائے تو حقیقی علم والے دفن ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بونے (کم عقل اور کم علم) اُبھرنا شروع ہو جاتے ہیں.
• ایسا سماج جو حقیقی شاعر، ادیب، فلاسفر، مفکر، سیاسی مفکر (Political Scientist) اور اہلِ فکر کو زندہ درگور کر دے، وہاں پر یا تو مُردوں (مرے ہوؤں) کو مانا جاتا ہے یا پھر بونوں کا راج ہوتا ہے.
• زبانوں کی ترقی کانفرنسوں سے نہیں، اس میں سماجی، سائنسی اور فکری خزانوں کے بڑھنے سے ہوتی ہے.
• دانش کے زوال میں پہلے ادیب اور شعراء شامل تھے، اب صحافی اور اینکرز بھی شامل ہو گئے ہیں.
• ہمارے سماج، ملک اور ریاست میں کرپشن سے بڑا مسئلہ ناہلی (Incompetency) کا ہے. دولت لُوٹنے سے زیادہ مسئلہ استحصال (Exploitation) کا ہے.
• انسان کے اندر کی جہالت کی گندگی کی صفائی صرف علم سے ہی کی جا سکتی ہے.
• انگریز بہادر برِصغیر میں ایسی قیمے کی مشین چھوڑ گیا ہے کہ اس میں کوئی بھی گوشت، بکرا، مرغی یا گائے ڈالو مگر اس سے قیمہ ہمیشہ — کا ہی برآمد ہو گا.
• تاریخ کا پہیہ کبھی دہرایا نہیں جا سکتا، صدیوں پرانے سماجی اور تہذیبی ڈھانچے کو آج پر لاگو نہیں کیا جا سکتا. ہر زمانے کی اپنی ہیت اور تقاضے ہوتے ہیں. تاریخ ”مطالعہ‘‘ اور ”سبق‘‘ کے لیے ہوتی ہے، رہنے کے لیے نہیں.
• جب قومیں جھوٹ اور سرابوں میں گم ہونے کی عادی ہو جائیں تو وہاں سچ، تحقیق، منطق اور علم گناہ قرار دے دیے جاتے ہیں اور ایسی قوموں کا ایک ہی مستقبل ہے، ایک کے بعد دوسرے کی غلامی.
• جہاںحقیقی ہیرو قتل کر کے ان کی تاریخ کھرچ دی جائے تو پھر وہاں کے حکمران افسانوی ہیروز برآمد کر کے اس خلا کو پورا کرتے ہیں تا کہ اس قوم کو اپنی حقیقی تاریخ سے منقطع کر دیا جائے.
• سیاسی فکری اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو دشمن جاننا، جاگیردارنہ رویہ ہے.
• جو قومیں ناکام ہو جائیں وہ دوسری قوموں کے راہبروں کو اپنا آئیڈیل اور ان کی کامیابیوں کو اپنی کامیابی یقین کر بیٹھتی ہیں.
• کچھ لوگ جھوٹ کو باقاعدہ پال پوس کر بڑا کر لیتے ہیں.
• کوئی بھی نظام بدلنے کے دو دائرے ہوتے ہیں ، ایک انفرادی طور پر اپنے آپ کو بدلنا، دوسرا اجتماعی جدوجہد میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا.
• کسی بھی بکھرتے سماج میں تین قسم کے لوگ ہوئے ہیں:
اپنی بات بندوق کے زار پر منوانے والے
دوسرے گالی کو ہتھیار بناتے ہیں
اور سب سے کمزور قلیل لوگ دلیل اور منطق سے اپنا موقف پیش کرنے والے.
• بے زمین کو زمین دے دو، بے تعلیم کو تعلیم… پھر یہ خود ہی بدل دیں گے پاکستان.
• جھوٹ۔۔۔ سازش اور شور برپا کرنے سے، جب کہ سچ خاموشی سے اپنی طاقت پکڑتا ہے۔
• انقلاب جدید فلسفے اور عوامی روایات کے امتزاج سے پھوٹتا ہے.
• اکثر لوگ اپنی اچھی اور بڑی بڑی خوہشات کے بعد معجزوں کے منتظر رہتے ہیں. ان خواہشات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے وہ صلاحیت بھی درکار ہوتی ہے جو خواہشات سے زیادہ بلند ہو. صرف خواہشات پر جیتے رہنا، جلد یا بدیر مایوسی کو جنم دینے کا ایندھن ہے.
• دعا… اے خدا! مجھے جاہلوں کے علم اور علم والوں کی جہالت سے بچا.
• جب لوگ سیاسی لیڈروں کو مسیحا ماننے لگیں اور آخر تک ان سے کسی معجزے کی توقع لگائے رکھیں، وہاں کبھی سماج نہیں بدلتے. پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم لیڈر نہیں مسیحا تلاش کرتے ہیں. ہمارے ادب اور شاعری میں بھی مسیحا کی آمد کا خوب ذکر ہے. قومیں لیڈروں سے بنتی ہیں، مسیحاؤں سے نہیں. قوموں کی ترقی سائنسدانوں سے ہوتی ہے ”بابوں‘‘ سے نہیں. جس قوم کے تعلیم یافتہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں، سامنے بیٹھے ”بابوں‘‘ کی جملہ بازیوں سے اس جہاں میں قسمت بدلنے اور اس جہاں میں اپنی آخرت بدلنے پر یقین کر بیٹھیں، تو پھر ایسی قوم کا خدا ہی حافظ!
• حقِ اظہار کہاں سے شروع ہوتا ہے، کہاں ختم ہوتا ہے اور اس کی سرحد کیا ہے، یہ مدنظر رکھنا چاہیے.
• جمہوریت ایک طرزِ زندگی ہے. اگر کوئی شخص آپ کی رائے کا احترام کرتا ہے تو قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ جزوی طور پر یا مکمل طور پر آپ سے اتفاق کرتا ہو.
• جس سماج میں مرنے کے بعد لوگوں کو یاد کیا جائے، در حقیقت وہ سماج اس بڑے شخص کے فکر و خیال سے خوف زدہ ہوتا ہے. مردہ معاشرہ… کسی بڑے کے مرنے کا انتظار کرتا ہے.
• دوستی بنانے سے نہیں، نبھانے سے ہوتی ہے.
• کسی قوم کے خون میں کلونیل ازم رچ بس جائے تو یہ قومیں دوسری کسی قوم کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے، ان کو آقا بنا کر خود غلاموں جیسا رویہ اختیار کر لیتی ہیں۔
• ہماری مڈل و اپر کلاس، اوپری طبقات سے ساتھ شامل ہونے کے لیے تخلیقی کاموں کے بجائے ساری عمر ”بڑا گھر‘‘ اور ”قیمتی عروسی‘‘ تقریبات کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے.
• مختلف سیاسی دھاروں کا ایک ساتھ چلنا کسی بھی کھلے سماج کی خوبی ہوتی ہے.
• کوئی بھی سماج کرپٹ قیادت کے ساتھ پھر بھی چل سکتا ہے لیکن نا اہل سیاسی حکمران قیادت کے ساتھ ترقی نہیںکر سکتا.
• کسی بھی سماج میں مالی کرپشن سے زیادہ بڑا جرم ”معاشی استحصال‘‘ ہے.
• کتاب کو زندہ رکھنا سماج کا کام ہے.
• علم کا ارتکاز، دولت کے ارتکاز سے بڑا استحصال ہے.
• مظاہرے اور تحریک میں بہت فرق ہوتا ہے. تحریکیں انقلاب برپا کرتی ہیںجب کہ مظاہرے … انارکی، انتشار اور افراتفری.
• جاگیرداری، جمہوریت کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے. جاگیرداری کا خاتمہ کیے بغیر جمہوری نظام کا قیام ایک سراب ہے. صنعتی نظام کے بغیر جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکتی.
• علم شیئر کرنا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے.
• قوموں کو حقیقی دولت تہذیبی ترقی سے ملتی ہے نہ کہ معدنی ذرائع سے۔
• تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ ملاپ ہوا کرتا ہے کیوں کہ ہر تہذیب دوسری تہذیب سے سیکھتی ہے۔
• ایسا سماج جہاں کچھ لوگوں کے پاس سب کچھ ہو، عدم سماجی انصاف کا شکار ہوتا ہے اور ایسا سماج جہاں سب کے پاس سب کچھ ہو، دنیا میں جنت ہے.
• مسلسل سیاسی جدوجہد میں شہرت یا شناخت، ”By-product‘‘ ہے، منزل نہیں.
• جمہوریت، طرزِ زندگی ہے.
• تجزیہ کسے کہتے ہیں؟ معلومات، علم اور معروضی واقعات و حالات پر رائے دینا. غیب کے علم کا دعویٰ اور باڈی لینگویج، نالائقی کا اظہار ہے.
• سرمایہ داری اور سرمایہ دار میڈیا کو شکست صرف طبقاتی فکر ہی سے دی جا سکتی ہے.
• کیمرے کے لینز سے زیادہ اہم اور طاقت ور کیمرے کے پیچھے موجود فکر ہے.
• عظیم سیاسی راہ نما حکومتیں نہیں، اپنی قوم کی تقدیر بدلتے ہیں.
• بہتر وقت اور حالات کا منتظر رہنے کے بجائے معروضی حالات و حقائق میں رہ کر بہتر وقت کو پا لینے کی جدوجہد کرنی چاہیے.
• میں اپنے ہاتھ کی لکیروں میں قسمت تلاش کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے قسمت بنانے پر یقین رکھتا ہوں.
• ہر انقلابی، باغی ہوتا ہے لیکن ہر باغی، انقلابی نہیںہوتا. باغی بلا نظریہ ہوتا ہے جب کہ انقلابی، نظریے اور فکر کی پیداوار ہوتا ہے. باغی، تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتے. انقلابی، تبدیلی کی بنیاد ہوتا ہے اور پاکستان کا بحران جدوجہد کا نہیں، بلکہ یہی فکری اور نظریاتی بحران ہے.
• اچھا انسان آپ کو ”خوشیاں‘‘ دیتا ہے. برا انسان ”تجربہ‘‘، نہایت گرا ہوا انسان ”سبق‘‘ اور مہذب انسان آپ کو ”یادگار یادیں‘‘ دیتا ہے.
• زندگی اپنی مرضی سے اور اپنے وسائل کے مطابق گزارنا بھی بہادری ہے.
• جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات جب پسماندہ قوموں تک پہنچ جائیں تو یہ ایجادات علم سے بیزار اِن پسماندہ قوموں کی پسماندگی کو مزید پھیلا اور بڑھا دیتی ہیں.
• سیاسی سازش اور سیاسی جدوجہد، دو بالکل مختلف عمل ہیں. سازشیں کبھی قوموں کی تقدیر نہیں بدلا کرتیں.
• خوشی تلاش نہیں، تخلیق کریں.
• کتاب لکھنا عشق، چھاپنا جنون اور بیچنا حکمت ہے.
• ہمارے ہاں صرف مذہب کی بنیاد پر ہی بلاسفیمی کا الزام نہیں لگایا جاتا بلکہ کیمونسٹ نہ ہونے کی بلاسفیمی، فیمینسٹ نہ ہونے کی بلاسفیمی، لبرل نہ ہونے کی بلاسفیمی… یہ سب رجحانات حقیقت انتہا پسندی کی مختلف شکلیں ہیں.
• جس سماج میں سوال کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جائے اس سماج میں درحقیقت تحقیق کی جگہ ”ابوجہلی‘‘ لے لیتی ہے.
• پانی، آگ اور سچ اپنا راستہ خود بناتے ہیں اور جو ان کے سامنے رکاوٹ بنے انہیں روند ڈالتے ہیں.
• کوئی بھی زبان تب ترقی کرتی ہے، جب اس میں مختلف اور خصوصاً جدید علوم دستیاب ہوں. شعر و شاعری، زیر و زبر کے محور میں گھومنے والی زبانیں بانجھ ہو جاتی ہیں۔