میرا ماحول، میری جنت – ثاقب محمود بٹ

سب بچے باباجان کے ساتھ کھانے کی میز پر جمع تھے کہ ٹیلی وژن خبرنامہ کی آواز سنائی دی…
’’آج دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے…‘‘
خبریں سنتے ہوئے بابا جان نے اپنے ارد گرد بیٹھے بچوں سے پوچھا:
”پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ ماحول کسے کہتے ہیں؟‘‘
”جی بابا جان، جہاں ہم رہتے ہیں اس کے گردونواح کو ماحول کہتے ہیں.‘‘ فیصل نے جواب دیا.
باباجان: ”بالکل ٹھیک بیٹا، لیکن ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ ماحول آلودہ ہوتا جا رہا ہے. اس آلودگی کے خلاف جدوجہد میں آپ سب کو بھی شریک ہونا چاہیے. ترقی کی رفتار اور مسائل میں اضافہ کی شرح ایک جیسی ہے. انسان نے چاند تک رسائی حاصل کر لی لیکن زمین کے امن و سکون اور صاف شفاف ماحول میں رہنا بھول گیا.‘‘
سمیرا: ”باباجان آپ کی بات ٹھیک ہے، انسان نے خود اپنا ماحول خراب کیا ہوا ہے. ہمارے چاروں جانب زمینی، آبی اور فضائی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے. زمینی آلودگی پھیلانے میں زیادہ حصہ ہمارا ہے. ہم اپنا گھر صاف رکھتے ہیں اور تمام گندگی گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں. گلیوں سے گزرنے والے مختلف جانور اسی کوڑے کرکٹ کو مزید پھیلا دیتے ہیں. بارش ہو جائے تو گندگی کے یہ ڈھیر بدبو میں تبدیل ہو کر بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں.‘‘
باباجان: ”سمیرا آپ نے بالکل صحیح کہا، بچو کیا آپ میں کوئی بتا سکتا ہے کہ ہمیں گلی محلے کو کوڑا کرکٹ سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
علی: ”باباجان میں بتاتا ہوں.‘‘
باباجان: ”جی علی آپ بتائیے.‘‘
علی: ”اگر ہم اپنے گھر کا کوڑا کسی بڑے سے کنستر یا ڈسٹ بِن میں جمع رکھیں اور خاکروب یا میونسپل کمیٹی کے سٹاف کے ذریعے کوڑے والی مخصوص جگہوں تک پہنچا دیں تو یقیناً ہم اپنے گلی محلے کو کوڑا کرکٹ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.‘‘
باباجان: ”شاباش علی، اچھا فیصل آپ آبی آلودگی کے بارے میں کچھ بتائیے.‘‘
فیصل: ”بابا جان! آبی آلودگی ظاہر ہے پانی سے پھیلتی ہے. پانی ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے. بارش کے دنوں میں یہ پانی گلیوں میں کھڑا رہتا ہے. فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا پانی کئی بار نالوں سے باہر نکل کر پھیلنا شروع کر دیتا ہے. اس گندے پانی پر مچھر اور مکھیاں خوب پھلتے پھولتے رہتے ہیں. مکھیاں گندگی لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں اور ہیضہ کا باعث بنتی ہیں، جب کہ مچھر ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں. اس سب سے بچے نہ صرف بیمار ہوتے ہیں بلکہ اپنی تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکتے. لہٰذا پانی کو ادھر اُدھر بکھرنے سے بچانا چاہیے.
باباجان: ”زبردست، فیصل بیٹا آپ نے بہت عمدہ طریقے سے اپنے بہن بھائیوں کو آبی آلودگی کے بارے میں سمجھایا ہے. سمیرا میں چاہوں گا کہ آپ فضائی آلودگی کے بارے میں کچھ بتائیں.‘‘
سمیرا: ”جی بالکل، کیوں‌ نہیں. دراصل فضائی آلودگی ہمارے کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہو رہی ہے. علاوہ ازیں گلی محلے کے لوگ کوڑا کرکٹ کو آگ لگا دیتے ہیں جس سے فضا آلودہ ہو جاتی ہے اور طرح طرح کی سانس کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں. فیکٹریوں‌ کی چمنیوں، گاڑیوں، بسوں، موٹر سائیکلوں اور دیگر ذرائع سے نکلنے والی مختلف گیسیں ہماری صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہیں. ہمیں اس گرد آلود دھوئیں سے بچنے کے لیے ماسک وغیرہ ضرور استعمال کرنے چاہیں.‘‘
باباجان: ”بہت خوب سمیرا بیٹی. بچو آپ جانتے ہیں کہ شور بھی آلودگی کا باعث بنتا ہے. پریشر ہارن، اُونچی آواز میں موسیقی اور گاڑیوں و موٹر سائیکلوں کی پاں پاں‌ سے کانوں کے پردے کمزور ہو جاتے ہیں. کمرہ جماعت میں بھی طالب علم مختلف ذرائع سے شور کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں. ٹیلی وژن اور مختلف طرح کی گھنٹیوں کا شور بھی ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے. بہت سے لوگ شور کی وجہ سے مختلف ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں.‘‘
عمران: ”لیکن باباجان جیسے ابھی ہم نے ٹیلی وژن پر ماحولیات کے عالمی دن کے بارے میں خبر سنی، یہ بتائیے کہ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے؟‘‘
باباجان: ”عمران آپ نے بہت اچھا سوال کیا. دراصل اس دن کو منانے کا مقصد ماحولیات کی اہمیت کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا ہے اور ماحولیات کی بہتری کے لیے معاشرتی سطح پر کوششیں کرنا ہے. ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے مختلف ماحولیاتی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جب کہ سائنسدان بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سب کی مشترکہ کاوشوں سے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ یہ دن اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ہرسال 5 جون کو 1974ء سے منایا جا رہا ہے. پیارے بچو مجھے امید ہے کہ آپ سب کو اس بارے خاطر خواہ معلومات مل چکی ہوں گی. ماحولیاتی آلودگی کے سلسلہ میں ہم سب کو مل کر پھرپور جدوجہد کرنا ہو گی.‘‘
سب بچے یک زبان ہو کر بولے: ”ہم عہد کرتے ہیں‌ کہ اپنے ماحول کو صاف رکھنے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کرتے رہیں گے.‘‘
بچوں کا یہ عہد سُن کر بابا جان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور سب بچوں کو شاباش دیتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چل دیے.